قومی تحریک اور ہمارا سماج
تحریر کمبر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یوں تو بلوچ قوم صدیوں سے اپنے وطن اور قوم کی بقاء کے لئے مزاحمت کر رہی ہے مختلف ادوار میں مزاحمت میں اور قومی تحریکوں کی کاروائیوں میں اونچ نیچ دیکھنے کو ملا ہے کبھی سننے میں آتا ہے کہ تحریک مدھم ہو گئی، یہ تو بس بیرونی سازشیں تھیں، جو وقت کے ساتھ ختم ہو گئے کبھی دیکھنے کو ملا کہ تنظیم نے مختلف کاروائیوں کی ذمہ داری قبول کی یعنی تحریک پھر سے ابھری خیر یہ چیز یں تو جنگ کا حصہ ہیں اب اصل موضوع پر آتے ہیں۔
میں بلوچ سماج کے مرد ،عورت بوڑھے اور خصوصًا نوجوانوں کو بتا تا چلوں کہ صدیوں سے بلوچ سر زمین پر جاری جنگ پر غور و فکر کریں کہ یہ جنگ آخر کیوں لڑی جارہی ہے؟ آخر ہم کب بیدار ہونگے کیا ہماری بیداری کی وجہ ہر دفعہ ایسے ہو گی، جب تک قابض فوج ہمارے گھر میں گھس کر ہمارے اپنے ماں بہنوں کی عزت کو تار تار کرے ویسے تو ہم ہر وقت غیرت مند ہونے کا ڈھونک رچاتے ہیں پھر ہمیں اپنے ہمسائے یا ہمسائے علاقہ قوم اور بلوچ وطن کی ماں بہنوں کے لئے غیرت کیوں نہیں آتی؟ آنکھیں بہت چرا لئے اب بالخصوص نوجوانوں کو ظالم کے ظلم اور جبر کو اپنی غلامی کو مانتے ہوئے اس ظلم کے خلاف بلوچ قومی جدوجہد کا حصہ بننا ہوگا ۔
ہمارے ہاں ریاستی سرپرستی حاصل کرنے کی دوڑ میں قومی تحریک کی حمایت تو دور بلکہ طرح طرح کے من گھڑت الزامات لگائے جاتے ہیں حالانکہ لاشعور میں شہیدوں کے شان میں بھی گستاخی بھی کی جاتی ہے اتنی خبر تک نہیں کہ یہ جدوجہد ہمارے لئے ہماری سرزمین کے لئے لڑی جارہی ہے یہ شہدا ہمارے لئے ہی جدوجہد کرتے کرتے شہید ہو گئے ہیں۔
ہم جانتے ہیں قوم میں موجود ایسے لوگ کسی آستین کے سانپ سے کم نہیں تحریک ایسے لوگوں کے خلاف کروائی بھی کر سکتی ہے لیکن ہماری جدوجہد نیشنل ازم کی بنیاد پر ہے اول ہماری یہی کوشش ہوتی ہے کہ قوم کے ہر فرزند کو اس جنگ سے آگاہ کیا جائے۔
ریاست اور اس کے مخبری کرنے والوں نے تو ہمیشہ قومی جدوجہد کو قوم کے سامنے مختلف القابات سے بیان کیا ہے کبھی شدت پسند کبھی کبھی بیرونی سازشوں سے چلنے والا تحریک تو کبھی مذہبی بنیاد پر ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس طرح کی سازشوں سے جدوجہد میں شریک ساتھیوں کو اور ہزاروں شہیدوں کو اپنے لوگوں کے بھٹکنے کا افسوس ضرور رہتا ہے اپنے لوگوں کا سازشوں اور بہکاووں میں آنے پر قومی جدوجہد سے پرے رہنے کا افسوس رہتا ہے۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ قوم قومی جدوجہد کو اپنائے اور قومی آزادی میں اپنا حصہ ڈالے،تحریک کو اپنانے کے بجائے تحریک کے ایکٹوٹیز کو غلط قرار دینا ریاستی مخبری حاصل کرنے کے لئے جابر کا ساتھ دے کر اپنے لوگوں کے استحصال میں شریک ہونا بلوچ سرزمیں اور جدوجہد میں قربان ہزاروں شہیدوں کے ساتھ نا انصافی ہے مختلف نظریات کے حامی لوگ بھی ملینگے جن میں ریاستی سوشلسٹ سر فہرست ہیں سوشلزم کو ہم رد بھی نہیں کر سکتے، ہمیں اسکی تعلیمات ضرور حاصل کرنا چاہئے جس سے ہم قومی استحصالی میں شریک نہیں رہینگے لیکن اس نظرئیے کو اپلائی کرنا اور اپنے جدوجہد سے سردار اور الیٹ کو نکالنا ہمارے جدوجہد کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ہمیں تو بلوچ قوم کے بچے بوڑھے اور جوانوں کو قومی جدوجہد کا حصہ بنانا ہےہمیں اپنے لوگوں کو چن چن کر تسبیح کے دانوں کی طرح اکھٹا کرنا ہے منظم ہو کر آزادی کے سفر پر جاری اپنے لوگوں کا ہمسفر بننا ہے۔
بلوچ قوم کو قومی تحریک اور قومی جدوجہد کو اپنانا ہوگا وگرنہ غلامی کئی نسلیں مزید لے ڈوبیگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں