پانچ سالوں سے جبری طور پر لاپتہ قومپرست رہنماء ایوب کاندھڑو کا بیٹا سجاد ایوب کاندھڑو بھی لاپتہ کردیا گیا۔
وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ گذشتہ دو روز سے جبری طور پر لاپتہ سجاد ایوب کاندھڑو کے رشتہ داروں نے قاسم آباد پکوڑا اسٹاپ پر جانچ کی، جس کے بعد عینی شاہدین سے معلوم ہوا کہ 16 جون کی رات کو سجاد ایوب کاندھڑو ایک دوست کی موٹر سائیکل سے اتر کر کچھ وقت پکوڑا اسٹاپ پر کسی دوست کا انتظار کر رہا تھا تو اتنے میں ایک رینجرز کی گاڑی اور ایک بنا نمبر پلیٹ کی گاڑی آکر وہاں رکیں، جنہوں نے سجاد کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر گاڑی میں بٹھایا اور نامعلوم جگہ لے گئے۔
سجاد ایوب کاندھڑو کی بہن ماروی کاندھڑو نے کہا ہے کہ ہمارے گھر میں ماتم ہے، ایک تو پہلے ہی 5 سالوں سے میرے والد ایوب کاندھڑو کو جبری لاپتہ کیا گیا ہے اور اب میرے چھوٹھے بھائی سجاد کو بھی اٹھاکر لاپتہ کیا گیا ہے۔
لاپتہ سجاد سندھ یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے شعبے کے فائنل ایئر کا شاگرد ہے، جو گذشتہ 5 سالوں سے اپنے جبری طور پر لاپتہ والد ایوب کاندھڑو کی آزادی کے لیئے احتجاج و مظاہرے کرتا رہا ہے۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ ہم اعلیٰ عدلیہ اور انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ریاستی اداروں کی جانب سے کیئے جانے والے مظالم و جبر کا نوٹس لیا جائے اور ہمیں اپنے والد اور بھائی ریاستی اداروں کی تحویل سے باسلامت بازیاب کرکے دیا جائے۔
دوسری جانب سندھی لاپتا افراد کی نمائندہ تنظیم وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ نے اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی ادارے جان بوجھ کر سندھ کو نیا بنگلادیش بنوانے کی طرف دھکیل رہے ہیں، سندھ سے پہلے ہی سینکڑوں سیاسی سماجی و قومپرست کارکن جبری لاپتہ اور گرفتار ہیں، اب ایک لاپتہ والد ایوب کاندھڑو کے بیٹے سجاد کاندھڑو کو بھی جبری لاپتہ کردیا گیا ہے۔ جس کی سخت مذمت کی جاتی ہے۔
کنوینئر سورٹھ لوہار کا کہنا ہے کہ وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ سجاد ایوب کاندھڑو سمیت تمام لاپتہ افراد کی آزادی کے لیئے 20 جون کو شکارپور میں “لاپتا افراد آزادی مارچ” کا اعلان کرتی ہے، اس کے بعد سندھ بھر میں بھرپور احتجاجی تحریک کا اعلان کیا جائے گا۔