غربت و پسماندگی کو بڑھاتی ہوئی ترقی – ڈاکٹر ریاض بلوچ

475

 

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا 44 فیصد حصہ ہونے کی وجہ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ اور آدھا پاکستان تصور کیا جاتا ہے۔ قدرتی وساٸل سے مالا مال قیمتی و نایاب معدنیات سونا، چاندی، تانبا، گیس، کوٸلہ، کروماٸیٹ، سنگ مرمر، گندھک و دیگر بیش بہا قیمتی و نایاب ذخائر نے ملکی معشیت کے ایک بڑے حصے کو سنبھالا ہوا ہے، مچھ و ہرناٸی کے کوٸلہ کے کانوں اور سوٸی کے گیس زخاٸر عرصہ طویل سے ملکی معیشت کو مظبوط کرنے والے فیکٹریوں صنعتوں کے زیادہ تر حصے کا پہیہ چلانے کے ساتھ ساتھ گھریلوں ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے سوئی سے نکلنے والی گیس پورے ملک کے دیگر صوبوں میں بآسانی پہنچ رہی ہے مگر آج بھی بلوچستان کے 3 یا 4 شہروں کے علاوہ کسی شہر میں نہیں پہنچ سکی، سوئی شہر کے باسی آج بھی گیس کی بو بھی سونگھ نہیں سکتے اور لکڑی کے آگ سے گزر بسر کر رہے ہیں۔ سیندک سے نکلتی ہوئی سونا تانبا سے ملک کے موجودہ سیاہ و سفید کے مالک عمران خان ملک کے قرضے ادا کرنے کے عزم کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ جغرافيائی لحاظ سے بھی پاکستان کی اسٹرٹیجک اہمیت و افادیت باقی صوبوں کے مقابلے میں سب پر واضح ہے۔ گوادر پورٹ جہاں ہر ایک آنکھ کو بھانے کے ساتھ چائنا و دیگر ممالک کی دلچسپی کا مرکز بنا ہے۔ 700 کلو میٹر سے زاٸد ساحلی پٹی بلوچستان کے خوبصورتی اور قیمت کو دوبالا کرتا ہے، ایران افغانستان کے ساتھ ملتی سرحدیں جہاں سے اسے وسطی ایشا۶ اور روس و مغربی یورپ سے نزدیکیاں بڑھا کر منسلک کرتی ہیں، بحیرہ عرب کے ساتھ چلتی ہوٸی بلند و بالا چٹانیں گرین بیلٹ کوہ سلیمان جھالاوان ساراوان و مکران کے علاقے خدوخال موسم آب و ہوا کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں ثقافتی سماجی معاشرتی حساب سے بلوچستان کے اکثر علاقے قبائلی نظام وجود رکھتی ہے اکابرین کی محنت برباری تحمل پسندی کی بدولت مذہبی بلند پایہ اخلاقی اطوار برقرار ہیں، اتنی بہش بہا نعمتوں کا مجموعہ ہونے کے باوجود پاکستان کا غریب ترین صوبہ ہونے کے ساتھ ساتھ صومالیہ زمبابوے سمیت افریقی ممالک کی ہم پلہ ہونے کا ناقابل قبول ریکارڈ اپنے پاس رکھتا ہے۔

جہاں ایک طرف بلوچستان کی خصوصیات، اہمیت، افادیت و قدرتی نعمتوں کی تعریف کی حقیقت ختم ہونے کا نام نہیں لیتی، وہی روز اول سے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی نااہلی و ناقص پالیسیز اور بے دردی و لوٹ کھسوٹ سے مزین افسانے کو بیان کرنے کی حقیقت طویل ہے۔ حکمران ایک ماٸنڈ سیٹ کے ساتھ لونگ ٹرم پالیسی کے تحت 1970 تک تو بلوچستان کو صوبے کا درجہ دینے تک تیار نہیں تھے تاکہ انکی محرومیاں ختم کرنے والے نماٸندگی نہ کر سکے اور انکی آواز دبایا جاسکے اور اپنی من پسندی و استحصالی کو بجاری و ساری کیا جاسکے، اپنے جمہوری و سیاسی حقوق کو نہ پہچان سکیں۔ جب بلوچستان کے اکابرین نے جمہوری سیاسی انسانی حقوق کےلیے جدوجہد کی تو سینکڑوں سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنوں کو گرفتار، قتل یا ملک بدر کیا گیا جن میں نواب غوث بخش بزنجو، سردار عطا۶ اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری، میر عبدالعزیز کرد، نواب نوروز خان، خان عبدالصمد خان، سمیت سینکڑوں سیاسی رہنماؤں کو بلوچستان میں سیاسی جدوجہد سے روکنے کیلئے مختلف حربے استعمال کیے گئے۔ بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت و وزیر اعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کو برطرف کرکے سردار مینگل نواب مری و دیگر سیاسی رہنماؤں کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرکے زندانوں میں ڈالنا ان حربوں اور مظالم کا حصہ رہا ہے۔

بلوچستان کے باسیوں اور دنیا کے آنکھوں میں سیاہ پٹی باندھنے کیلئے کروڑوں روپے خرچ کرکے الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا اسٹرمنگ میڈیا، اخبارات کی شہ سرخیوں تازہ ترین خبروں، سیمینارز سرکاری و نیم سرکاری تقریبات و دیگر پلیٹ فارم پر دعوی کیا جاتا ہے کہ بلوچستان کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے اور بلوچستان کو بہت کچھ فراہم کیا گیا ہے، آغاز حقوق بلوچستان پیکج سمیت دیگر پیکچز کا اعلان بلوچستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے، مگر حقیقت کچھ یوں ہے کہ بلوچستان ملک کا زبوں حال پسماندہ ترین صوبہ ہے 90 فیصد آبادی بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہیں۔ ستر سالوں میں دیہی علاقوں میں یونیورسٹی کالجز دور حکومت تعلیم تک نہیں لا سکی موجودہ سکولز بند کھنڈرات کا منظر پیش کرتے ہیں۔ اکثر بچے سہوليات و غربت کی وجہ سے مڈل کے بعد اسکول جانا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ کالجز و یونیورسٹی لیول پر بھی کوئی پرساں حال نہیں ہے، دیگر صوبوں میں بلوچستان کے طالبعلم شاذو نادر ہی ملیں گے ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 1.9 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اس آبادی میں 51% لڑکیاں ہیں اس وقت بلوچستان میں صرف 42 ہاٸیر سیکنڈری اسکولز موجود ہیں 16 سال کی عمر تک صرف 30 اور 15 فیصد لڑکے لڑکیاں بالترتیب انگریزی کے جملے پڑھ سکتے ہیں۔ تعلیمی سہولیات و پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے پسماندگی میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے.

صحت کے حوالے سے پورے ایشیاء میں بلوچستان بدترین ریکارڑ رکھتا ہے ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کو دوران زچگی سب سے زیادہ اموات والا صوبہ قرار دیا گیا تھا، اکثر علاقوں میں بی ایچ یوز اور سی ڈیز تک موجود نہیں آر ایچ سی و سول ہسپتالوں کا ہونا خواب جیسا لگتا ہے کراچی کوٸٹہ روڑ بلوچستان کا سب سے مصروف ترین شاہراہ ہے جہاں 80 فیصد ٹریفک رواں دواں رہتا ہے مگر ستم ظرفی دیکھیں یہ بین الصوباٸی شاہراہ آج تک موٹر وے انٹر نیشنل معیار سے درکنار دو رویہ تک نہیں بنایا جاسکا جس کے سبب آے روز روڈ حادثات میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے، دہشت گردی ٹارگٹ کلنگ سے اتنے افراد نہیں مرتے جتنے روڈ حادثات میں مرتے ہیں.

گوادر پورٹ کو خطے کا گیم چینجر قرار دیا جارہا ہے، سی پیک جیسے میگا پروجیکٹ سے ترقی خوشحالی کے منصوبے بنائے جارہے ہیں، بڑے بڑے معاہدے طے پائے جارہے ہیں، چائنا اپنے مفادات کے خاطر یہاں دو آنہ انویسٹمنٹ کرکے بلوچستان کے قیمتی معدنیات لے جا رہا ہے اور دنیا کے سامنے ایک طاقتور ملک بن کر ابھر رہا ہے، مگر یہاں کے باشندے بھوک پیاس و افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کٸی نسلوں سے یہاں اپنے رسومات اطوار کے ساتھ رہاٸش پذیر ہے، جنکی آباٶاجداد نے ان زمینیوں کی مختلف ادوار میں حفاظت میں اپنی جان قربان کر دی۔

انکے آباٶاجداد کی قبریں یہاں موجوود ہیں، انکی بقاء شناخت روزگار کے لیے ستر سال گزرنے کے باوجود بھی کوئی اقدامات نہیں۔ گوادر پورٹ کا ماسٹر پلان تک وزیروں تک کو معلوم نہیں روڈس کارخانیں دیگر پروجیکٹز کیا کچھ اس میں شامل ہے، چند مخصوص افراد یا طبقہ کے علاوہ دیگر کسی کو کچھ علم نہیں۔ چائنا نے بلوچستان سے اپنی اکانومی مظبوط ترین کرلی مگر بلوچستان کے مقامی افراد کو ابھی تک اس میگا پروجیکٹ کے ثمرات حاصل نہیں ہوئے، ہاں البتہ ماہی گیروں کو نان شبینہ کا محتاج ضرور بنایا گیا۔ روڈ زون و ڈوپلمنٹ کے نام پر اکثر غریبوں کو جائیداد سے بےدخل کیا گیا۔ جن جن ایریا سے روڑ گزری ہے وہاں لوگوں کے مکان گھر دکانیں ملیامیٹ گرا دیے گئے، زمینیں انتہائی کم قیمت پر ان سے ہتھیا گیا ہے جوکہ انکی وراثت آباٶاجداد کی نشانی اور روزگار کا ذریعہ تھیں۔ موجودہ حکومت کوئٹہ کے اکثر علاقوں میں روڈز کشادہ کرنے کیلئے کئی دکانیں گرا کر انتہائی کم قیمت پر وہاں کی زمینیں اپنے قبضے میں لے لیا روڈز کشادہ کرنا ایک بہترین عمل اور ترقی و خوشحالی کیلئے لازم ہے مگر بغیر کسی پالیسی کے سینکڑوں دکانیں گرا کر ہزاروں افراد سے کاروبار چین کر انکو نان شبینہ کا محتاج کرنا خوش آئند نہیں ۔

چند سال قبل بلوچستان نیشنل پارٹی کے جانب سے بلوچستان کیلئے آل پارٹیز کانفرنس بلاٸی گٸی تھی جس میں تمام پارٹیز نے متفقہ طور پر چارٹر آف ڈیمانڈ پر دستخط کئے مگر حکمرانوں کی عدم دلچسپی کے باعث آج تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔

تاریخ گواہ ہے آج تک بلوچستان میں جتنے میگا پروجیکٹس شروع ہوٸیں ہے، کسی سے بلوچستان کے باسیوں کو ترقی خوشحالی آسراتی نصیب نہیں ہوٸی سیندک سی پیک سوئی گیس اور دیگر پروجیکٹ سے تو اربوں ڈالر کمایا گیا مگر مقامی باشندوں کو آج تک صحت تعلیم سمیت دیگر بنیادی سہولیات میسر نہیں بلوچستان کو ہمیشہ احساس کمتری میں مبتلا کیا گیا اور دوسرے درجے کا شہری سمجھا گیا آج تک بلوچستان کے قدرتی وسائل انکے لیے بنیادی انسانی سہولیات کا فراہم کرنے کا باعث نہ بن سکی بلوچستان کے باشندوں کے ساتھ فقط یہ سلسلہ طویل ہوتا جا رہا ہے قدرتی وسائل معدنيات کے مالک میگاپروجیکٹس والے علاقوں کے مالک مگر پسماندگی اور غربت میں زندگی بسر کرنے پر بے بس لاچار و مجبور ہیں۔

 


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں