کراچی سے متصل بلوچستان کی صنعتی شہر حب میں بڑی تعداد میں بلوچ اور پشتون عوام نے عثمان کاکڑ کی میت کا استقبال کرکے پھول نچاور کیے-
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے منگل کی علی الصبح بلوچ اور پشتون سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد بلوچستان کو کراچی سے ملنے والے حب پل، باب بلوچستان کے مقام پر جمع ہونے شروع ہوئے اور میت کی بلوچستان میں داخل ہونے کے انتظار میں کھڑے رہے، جیسے ہی عثمان کاکڑ کی میت کو لیجانے والی ایمبولینس حب شہر میں داخل ہوئی تو لوگوں نے پھول نچاور کیے اور انہیں سلامی دی –
اس موقع پر ہر آنکھ اشکبار اور لوگ غمزدہ تھے –
میت کے انتظار میں کھڑے ایک بزرگ پشتون سیاسی کارکن گل محمد کاکڑ نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ آج صرف پشتون نہیں بلکہ بلوچ بھی غمزدہ اور سوگوار ہیں، ہم سے ایک مضبوط آواز چھینی گئی ہے-
انکا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے ایوانوں میں اسکی گرج دار آواز بلوچستان کے لیے تھا لیکن اب یہ آواز ہمیشہ کے لئے خاموش کیا گیا –
انہوں نے کہا پشتون اور بلوچ قائدین عثمان کاکڑ کی موت کا شفاف طریقے سے تحقیقات کروانے میں اپنا کردار ادا کریں –
حب شہر میں آرسی ڈی روڈ کے دونوں طرف بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی کے کارکنان اور عہدے داران بھی اپنے اپنے پارٹی جھنڈوں کے ساتھ کھڑے تھے اور عثمان کاکڑ کی جدوجہد پر انہیں خراج تحسین پیش کرریے تھے –
حب شہر سے آگے بلوچستان کے دیگر بلوچ اکثریتی علاقوں میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد نے میت کو سلامی پیش کرتے ہوئے پھول نچاور کیے ہیں –
یاد رہے کہ عثمان کاکڑ کو 17 جون کو شہباز ٹاﺅن میں واقع ان کے گھر سے بے ہوشی کی حالت میں ایک نجی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ اس وقت انکے قریبی ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ انھیں گھر پر اچانک دورہ پڑا ہے جس کے باعث وہ گرے اور ان کے سر پر چوٹ آئی۔
عثمان کاکڑ بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے مسلم باغ میں سنہ 1961 پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق پشتونوں کے معروف اور بڑے قبیلے کاکڑ سے تھا۔
میٹرک کوئٹہ میں اسلامیہ اسکول سے کرنے کے بعد انہوں نے بہاولپور سے انجنیئرنگ میں ڈپلوما حاصل کیا۔ سائنس کالج سے بی ایس سی کرنے کے بعد انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے ایم اے اکنامکس کی ڈگری حاصل کی۔
انہوں لا کالج کوئٹہ سے ایل ایل بی بھی کیا۔ زمانہ طالعلمی سے ہی وہ پشتون قوم پرست طالب علم تنظیم پشتونخوا ملی اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن سے وابستہ ہوئے۔ وہ تنظیم کے مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ سنہ 1987 میں پشاور میں ایک بڑی کانفرنس میں تنظیم کے سیکریٹری اول یعنی سربراہ منتخب ہوئے۔
عثمان کاکڑ سابق آمر ضیاءالحق کے دور میں پابندیوں کے باعث ترقی پسند طلبا کی ملک گیر الائنس پاکستان پروگریسو الائنس کے پلیٹ فارم سے بھی متحرک رہے۔
سنہ 1986 میں طلبا سیاست سے فراغت کے بعد انھوں نے باقاعدہ طور پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
پارٹی میں فعال کردار کی وجہ سے محمد عثمان کاکڑ کو پارٹی کا صوبائی صدر منتخب کیا گیا اور گذشتہ طویل عرصے سے پارٹی کے صوبائی صدر کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیتے رہے۔