تاریخی دھارا اور روایتی بھنور – شہیک بلوچ

161

تاریخی دھارا اور روایتی بھنور

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسانی تاریخ کو سائنسی جدلیات کی بنیاد پر سمجھنا لازم ہے کہ انسانی تاریخ مسلسل بہاو کا نام ہے۔ جس طرح عظیم فلسفی ہیگل نے اپنے سے پچھلے فلسفیوں کے کوششوں کو (تاریخ کا مرکزی سرا ڈھونڈنے کی کوششوں کو) یہ نتیجہ اخذ کرکے منطقی انجام تک پہنچایا تھا کہ تاریخی عمل کا مرکزی سرا یا absolute point بذات خود تبدیلی کے اور کچھ نہیں یعنی تاریخی عمل بذات خود تغیر کا شکار ہے۔

تاریخی عمل کو سمجھنے اور اپنا کردار ادا کرنے والی قوموں نے وحشت سے تہذیب تک خود کو پہنچایا۔ عام انسانی ادراک سے لے کر شعور تک کا یہ سفر انسانی جدوجہد کی اہمت کو ظاہر کرتی ہے۔
یورپ میں نشاۃ ثانیہ کیساتھ جس طرح انسانی سوچ و فکر نے انسانی حریت کے سوال کے گرد واضح سوالیہ نشان ثبت کیا وہی اس سوچ نے کہنہ کو مسترد کرکے تاریخی دھارا کو جدت کی خوبصورت سمت بھی فراہم کیا۔

برطانیہ میں انڈیسٹریلائزیشن، فرانس میں سیاسی انقلاب اور جرمنی میں فلسفہ کے مدبرانہ بحث سے مکمل تصویر ہی بدل جاتی ہے۔ یورپ اب عہد تاریک کا یورپ نہیں رہتا بلکہ یہ تہذیب کا گہوارہ بن کر ابھرتا ہے۔

آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مغربی دنیا اور بالخصوص تیسری دنیا کے درمیان کس حد تک حد_ فاصل ہے۔
تیسری دنیا ابھی تک روایتی سوچ کے بھنور میں پھنسی ہے اور اس سوچھ سے جب تک خود کو نہیں نکالتی اس وقت تک وہ تاریخی عمل میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہی رہیگی۔
وہ سازشوں کا شکار رہیگا کیونکہ اس نے جدت کو نہیں اپنایا تو وہ جدید دنیا کا مقابلہ نہیں کرپائے گا۔

جدت اور کہنہ کی یہ کشمکش ہی تعین کرتی ہے کہ تاریخی عمل میں سماج ترقی کی جانب جائیگا یہ روبہ زوال ہوگا۔ یورپ میں جدت نے قدم جمائے تو یورپ پوری دنیا کے تاریخی عمل پر اثرانداز ہوا جبکہ ہم تیسری دنیا کے کردار کو ایک متاثرہ کردار کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔
یہاں ہم بلوچ قومی تحریک کے پس منظر میں بلوچ کے تاریخ بابت سوچ کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ بلوچ ایک منظم قوت بننے سے کیوں محروم رہا ہے۔ کیوں برطانوی سامراج اپنی پالیسیاں بہ آسانی مسلط کر پایا ہے اور پھر انہی پالیسیوں کے تسلسل کو پاکستان ہم پر برقرار رکھتا آرہا ہے۔

مزاحمت اپنی جگہ لیکن ایک متبادل کے طور پر ابھرنے سے بلوچ کی ناکامی اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ تاریخی عمل کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کی بجائے اپنے تصوراتی سوچ کیساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور اس کوشش میں نقصان زیادہ ملا ہے۔
شہید خان محراب خان سے لے کر اب تک ہم کہاں کھڑے ہیں یہ سمجھنا ضروری ہے۔
بلوچ قوم بالخصوص بلوچ جہدکار کو تاریخی عمل کو سائنسی جدلیات کی بنیاد پر سمجھنا ہوگا، اپنے تجربات سے سیکھنا ہوگا، اپنے گرائونڈ ریلیٹیز کو مدنظر رکھتے ہوئے عمل کرنا ہوگا تب ہی ہم بھٹکنے سے بچ سکتے ہیں۔
فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم تاریخی دھارا میں آگے بڑھتے ہیں یا روایتی بھنور میں پھنس کر تحریک کو مزید پیچھے دھکیلتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں