بی این وائی ایم سے نیشنل پارٹی تک – شاھمیر بلوچ

361

بی این وائی ایم سے نیشنل پارٹی تک

تحریر: شاھمیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ابھی محض پچھیس تیس سالوں کی تو بات ہے کہ بلوچستان کے کچھ بڑے سیاسی کھلاڑی آپس میں گھتم گُتھا تھے۔ ہر کوئی نظریہ نظریہ کھیل رہا تھا ، مگر اصل میں سارا کھیل مفادات کا تھا۔

مفاد بھی کسی عظیم تر قومی مقصد کے حصول کی نہیں ۔ بلکہ نظریہ اور سیاست کی آڑ میں خود اپنا ذاتی اُلو سیدھا کرنا ہی مقصود تھا۔

بلوچستان کے سیاسی معاملات پر گہری نظریں رکھنے والی اہل بصیرت سیاسی علما کہتے ہیں کہ شھید فدا کی شہادت کے بعد ہی بلوچستان کی سیاسی افق سے نظریاتی سیاست تو  دم دبا کر بھاگ نکلی تھی۔مگر  سالوں کی جستجو اور تگ و دو کے بعد پتہ چلا کہ وہ تو پاکستانی پارلیمنٹ میں بڑے بڑے ساہوکاروں کاکھیل بن کر ناچ رہی تھی۔ اور اپنے پیروں میں بندھے گھنگروؤں کی آواز سے  تلاش گمشدہ میں مگن عوام کو بہلا پُھسلا کر یہ باور کرا رہی تھی کہ اب کی بار منزل پہنچا ہی چاہتا ہے۔ اور یہ جو آوازیں بند دیواروں کے پیچھے سنائی دے رہی ہیں اصل میں یہ سب سامراج کی تابوت میں آخری کیل ٹوکتے ٹوکتے ہتھوڑے کی آوازیں ہیں۔

درون خانہ کچھ اور ہوتا رہااور  باہر عوام کی نظروں میں دھول جھونکنے کی خاطر کبھی کسی کو لعن طعن اور کبھی اخباری بیان بازی سے بلوچ کی غضب شدہ سیاسی و سماجی حقوق کی واگزاری  کی جھوٹی تسلیاں دے دے کراپنی اپنی جیبیں بھرتے رہے۔

اگر یوں کہا جائےکہ یہ حضرات سیاست و الیکشن کی آڑ میں سادہ لوح عوام کو آپس میں الجھا کر ان کی جانب سے بخشی گئی مینڈیٹ کا سودا کرتے گئے اور نظریہ اور بلوچ وطن کی تاریخی سیاسی حیثیت کی بحالی کے خواب آنکھوں میں سجائے نوجوان سیاسی کارکنوں اور باشعور بلوچ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کراصل میں نظریاتی سیاست کی ہی تابوت میں کیل ٹھونکے والوں کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہوتے رہے،تو بھی زیادہ  غلط نہیں  ہوگا۔

آزادی و خوداختیاری کے خواب سجائے بلوچ عوام کی بھاری اور غیر مبہم مینڈیٹ کا بوجھ اُٹھائے بلوچ نام نہاد قوم دوست پارٹیاں پارلیمانی زینوں پر چڑھ کر عوامی مینڈیٹ کا سودا کرتے رہے۔ ہر پارٹی اپنی اپنی نام نہاد قوم پرست نظریاتی سیاسی وزن اپنے کندھوں سے اتار کر ڈھیر لگاتے گئے اور پھر عالمی سامراج کے دلال کا چوکیدار آکر بولی لگاتا۔

جس کا جتنا بڑا وزن اسکی اتنی بڑی قیمت اور پھر بلوچستان سے پارلیمانی سیاسی جدوجہد کی آڑ میں وطن کی حرمت کے تحفظ کی امیدیں خاک میں ملتی گئیں اور مادر وطن کی گلی کوچوں سےنظریے کے ماتم کی آہ وزاری  بلند ہونا شروع ہو گئیں۔

کیونکہ نام نہاد بلوچ قوم پرست پارٹیاں عوام سے اُٹھ کر پارلیمنٹ تک پہنچنے کے بعد عوام سے کٹ کر ایسےغائب ہوگئے  جیسے آسمان سے آئے کسی پُر نورستارے کو کوئی بلیک ہول نگل لے۔اصل میں یہ پُر نور ستارہ تو وہ سیاسی فیصلہ تھا کہ ہم پاکستانی سیاسی نظام کا حصہ بن کر خود پاکستانی پارلیمان میں آزاد بلوچ وطن کے حصول کے لیے آواز بلند کرینگے اور بین الاقوامی سیاسی منظر نامے پر بلوچ وطن کی واگذاری کےلیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرینگے۔ اور اگر ہم نے یہ محسوس کیا کہ پاکستانی پارلیمان کا حصہ بننے سے بلوچ قومی کازکو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ہم دوبارہ عوام سے رجوع کرینگے۔

مگر پارلیمانی مراعات اور رنگینیوں کا کشش ایک ایسا بلیک ہول ثابت ہوا کہ جو بھی شخص یا پارٹی پارلیمان تک پہنچ سکا پھر بلوچ وطن کے مفادات سے زیادہ قبضہ گیر سامراج کے مفادات کا گُن گاتا رہا۔
حالانکہ جس جس پارٹی نے بلوچ کے نام پر ووٹ لیکر اسمبلیوں تک رسائی حاصل کر لی ان سبھی نے کسی نہ کسی سطح پر بلوچ قومی مفادات کا سودا کیا مگر  پاکستانی کر پٹ سیاسی کلچر کی دین سے ایک آدھ پارٹیائی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم پرست پارٹی سے بلوچ قوم کش پارٹی میں ڈھل گئے۔اور وہ آئی ایس آئی اور پاکستانی قابض فوج کی بی ٹیم کا روپ دھارنے لگے۔ ان پارٹیوں میں سر فہرست نیشنل پارٹی کا نام آتا ہے۔

نیشنل پارٹی اپنا سیاسی شجرہ تو قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی اور بلوچ وانندہ گل اور بی ایس او سے جوڑتی ہے اور  دعوی کرتی ہے کہ وہ تو متوسط بلوچ عوام کی نمائندہ سیاسی پارٹی ہے اور بقول ڈاکٹر مالک کے ان کی پارٹی بلوچ وطن کا ایجنٹ ہے۔ ایسے ہی مڈل کلاس طبقے کے لیے بابا خیر بخش مری صاحب نے “موقع پرست طبقے” کی اصطلاح استعمال کیا تھا ۔ جن کا پورا زور وقتی مراعات اور عہدے حاصل کرنا ہوتا ہے چائے اس کے لیے انھیں اپنے کسی بلوچ جہد کار کی جاسوسی کرکے انھیں قتل کرنا ہی کیوں نہ پڑے۔

دوسرے بلوچ پارلیمانی سیاسی جماعتوں اور نیشنل پارٹی میں بہت سی صفات مشترک ہیں۔مثلا تمام پارلیمان پرست پارٹیوں کے عہدے دار کرپٹ پاکستانی سیاسی کلچر کے رنگ میں رنگ گئے اور  اعلی اخلاقی اقدار پر قائم بلوچ سیاسی و سماجی زندگی میں پاکستانی انٹیلیجنس اداروں کی منصوبے کے عین مطابق بلوچستان کی صاف ستھری نظریاتی سیاسی ماحول کو  نچھلی سطح تک کرپشن کا زہر گولنے میں کامیاب ہوگئے۔ عام لوگوں کو زاتی مفادات و مراحات کے چرخے میں گھما پھرا کر نظریاتی سیاست سے مفاد پرستی اور موقع پرستی کی دوڑ پرلگانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔بلوچستان کی سیاسی طور پر زندہ سماج کو سیاست سے متنفر کرنے کو بھی پارلیمانی سیاسی پارٹیوں کا ہی کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

اس لیے ان تمام  پارلیمانی پارٹیوں سے نظریہ اور مفاد پرستی اور موقع پرستی میں فرق کرنا زیادہ آسان نہیں ہوگا۔جو پارٹی اقتدار سے باہر وہ نظریاتی قوم دوست پارٹی اور جو کوئی اقتدار میں آئے جی حضوری میں صف اوّل میں انکا شمار۔

  اس لیے اب نظریاتی اور  موقع پرستی کی بحث میں قوم کے باشعور  نوجوانوں کو  باہم گُتھم گُتھا رہنے کی ضرورت نہیں۔ اب تو ایک واضح لکیر کھینچی جا چکی ہے۔اورایک آدھ الیکشنوں  کے بعد یہ لکیر اور بھی اُجلی روشنی سے واضع ہو جائیگا اور بلوچ وطن میں کام کرنے والے سیاسی کارکنوں کو اپنا اپنا “دائرہء کار زیادہ بہتر اور واضع انداز میں سمجھ آئے گا اور وقت کی بے رحم آندھیاں یہ حقیقت بلوچ عوام پر آشکار کر دیگا کہ کون بلوچ وطن کا  حقیقی وارث ہے اور کو ن کون موقع پرست اور مفاد پرست ٹولے کا حصہ بن کر محض مراحات و عہدوں کی خاطر بلوچ وطن اور قوم کا نام استعمال کر رہا ہے؟

مگر اب بلوچستان کے سیاسی منظر نامے پر نیشنل پارٹی کی شکل میں ایک تیسری صورت بھی ابھر کر سامنے آگئی ہے۔ اصل میں نیشنل پارٹی کو بی این وائی ایم سے نیشنل پارٹی کی موجودہ شکل تک پہنچنے میں تیس سال لگ گئے ہیں۔ اس دوران پارٹی کے حقیقی اور نظریاتی دوستوں کو یا تو چُن چُن کر مروایا گیا اور انتہاہی صفائی سے کئی سالوں تک انہی کا نام استعمال کرکے اپنی وطن فروش سیاسی امپائر کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی۔ جبکہ بچھےکچھے ساتھیوں کو دیوار سے لگاکر  الگ تلگ کردیا گیا اور ان کی جگہ اسمگروں چوروں اڈاکوؤں اور قاتلوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نیشنل پارٹی کے جھنڈے تلے مجتمع کیا گیا تاکہ ایک منظم کلنگ مشین تیار کیا جا سکے جو با شعور سیاسی کارکنوں اور سمجھ بوجھ رکھنے والے طالبعلموں کی نشاندہی کرکے انھیں برائے راست ان کے پالے ڈرگ مافیا کے غنڈوں یا پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خونخوار درندوں کے سامنے پیش کر کے راستے سے ہٹایا جائے اور  بلوچستان میں ریاستی اداروں کا بلا شرکت غیر پٹو کا رتبہ حاصل کیا جائے۔

اگر باریک بینی سے دیکھا جائے اور حالات و واقعات کے باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ نیشنل پارٹی کی موجودہ قیادت اسی کی دہائی سے آج دن تک ریاستی اداروں کا آلہ کار بن کر بڑی منظم منصوبہ بندی سے نظریاتی اور فکری طور پر مضبوط سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو راستے سے ہٹاتی آرہی ہے تاکہ بلوچستان سے حقیقی قوم پرستانہ افکار کے پنپنے کے امکانات کو معدوم کیا جا سکے اور بدلے میں ریاست سے انعامات و اکرامات بٹورا جا سکے۔

فدا شہید کی شہادت کے بعد تو ایسا لگ رہا تھا کہ موجودہ نیشنل پارٹی اور اسوقت کی بی این وائی ایم کی قیادت پر تو آسمان قہر بن کر ٹوٹ گیا تھا۔ ہر طرف ماتم کا سا سماں تھا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ کس طرح نوجوان سیاسی کارکنان اور فدا شھید کے حقیقی سیاسی و فکری ساتھیوں کے جزبات کو استعمال کرکے کیسے مراعات بٹورے گئے اور شہید فدا احمد بلوچ کے خون کا سودا کیا گیا۔ فدا شھید کے بھائی منظور بلوچ کہتے ہیں کہ “کوئٹہ میں کچکول علی ایڈؤکیٹ کے گھر پر فدا شھید قتل کیس کے حوالے سے ایک میٹنگ چل رہا تھا۔ جس میں خود منظور بلوچ، فدا شھید کے والدصاحب چیرمین منصور بلوچ (جوکہ شھید فدا کے قتل کے چشم دید گواہ تھے) اور ڈاکٹر مالک موجود تھے۔ منصور بلوچ نے اس شرط پر عدالت میں گواہی دینے کا حامی بھرا کہ ڈاکٹر مالک فدا شھید کے قاتلوں کو اپنی پارٹی میں جگہ نہ دینے کی یقین دہانی کرائیں۔ مگر ڈاکٹر مالک نے ایسی کسی بھی یقین دہانی سے انکار کردیا اور منصور بلوچ نے بھی گواہی دینے سے معذوری ظاہر کی تھی”
اگر مالک اور ٹولہ واقعی شھید فدا احمد بلوچ کو اپنا سیاسی و نظریاتی رہشون مانتے اور فدا کی شہادت کا ان کو تکلیف تھا تو پھر  کیونکر انھوں نے قاتلوں کے سیاسی پشت پناہی نہ کرنے کی یقین دہانی کرایا تھا۔ اس واقعے سے یہ صاف ظاہر ہو چکا تھا کہ ڈاکٹر مالک اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے اور اپنی منافقانہ سیاست کی راہ میں رکاوٹ بننے کیوجہ سے فدا بلوچ کو شھید کروایا تھا اور بلوچ قوم کو ایک عظیم نظریاتی اور مدبر رہنما سے محروم کروایاتھا۔ جبکہ آج شھید فدا کے قاتلوں کا پورا ٹولہ نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم پر یکجا ہو چکے ہیں اور بلوچ وطن کی پاسبانی کا دعوی کرکے پسِ پردہ بلوچ و بلوچ وطن کے دشمنوں کے ساتھ ملکر وطن زادوں کے خلاف منظم جاسوسی نیٹورک اور ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کی مدد سے انھیں نشانہ بنوا رہے ہیں اور خود انتہاہی چالاکی اور مکاری سے مظلومیت کا ڈرامہ رچا رہے ہیں۔

اگر مالک اور نیشنل پارٹی اور ان کے جانثاروں کو فدا شھید کے قاتلوں اور مالکی سازشوں کا علم نہیں تو آکر بلوچ قوم کو یہ بتائیں کہ حمید انجینیر  یا حمید قریش کا فدا شھید قتل میں کیا کردار تھا؟ ( واضع رہے کہ انھیں فدا شھید قتل کیس میں  عمر قید کی سزا بھی ہوئی تھی)۔ ڈاکٹر کہور خان کا کردار کیا تھا؟ ایوب زامرانی کون ہیں جن کو آپ نے تربت میں زمین و جائداد سے نوازا اور اپنے دور حکومت میں نوکریوں سے کس کام کی شاباشی کے لیے نوازا تھا؟ غلام جان عرف غلاموں نے فدا شھید پر کتنے گولیاں برسائے تھے جو بعد میں آپ کے چہیتے بنے اور ریاستی بندوق کندھے پر لٹکائے حال ہی میں بارڈر پر بھی دو معصوم بلوچوں کا قتل کرکے ان کا گاڑی چھین لیا تھا؟ نظیر درا اور منشی محمد کے خاندان کے دوسرے لوگوں کو شھید فدا پر برائے راست کتنی گولیاں برسانے کے انعام کے طور پر ابھی پچھلے مہینے آپ کی پارٹی نے تربت میں گرینڈ شمولیتی جلسے کے نام پر اعزاز سے نواز کر اپنی پارٹی میں ریڈکارپٹ انٹری دے کر کیا پیغام دیا تھا؟خود آپ ہی کے جیالے ریاض ٹائیگر کا قاتل اور دنیا کے سب سے بڑے منشیات سمگلروں میں شمار ہونیوالا امام بیل کس کے ساتھ ہیں؟ واجہ غلام محمد بلوچ اور ان کےہزاروں رفیقوں کی پارٹی کو یرغمال بنا کر  کیوں ڈرگ مافیا، پیشہ ور قاتلوں ، چوروں، ڈاکوؤں اور بد معاشوں کے حوالے کیا اور ان کے سہارا لیکر بلوچ وطن زادوں کی جاسوسی اور قتل و اغوا کاری میں اپنا منہ کالا کیا؟ شھید ایوب بلیدی کے قاتل آج کس کی گود میں بھیٹے ہوئے ہیں؟ بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچ دوست طلبا اور پروفیسرز کی جاسوسی کس نے اور کس کی ایما پر کی ہے اور سینکڑوں نوجوانوں اور بلوچ دانشوروں کو قتل کروایا؟

راقم الحروف خود گواہ ہیکہ کی جون 2014 کو چیف منسٹر ہاؤس میں آپ کے ترجمان جان محمد بلیدی نے اپنی پاکٹ اسٹیوڈنٹ آرگنائیزیشن کے عہدے داروں سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اللہ نظر کو پُوک(احمق) قرار دیا تھا اور اپنے پالے ہوئے جاسوسوں کو تسلی دے رہا تھا کہ بہت جلد ان کی حکومت ان احمقوں اور ان کے ساتھیوں کا قلع قمع کروائے گی اور پھر بقول ان کے بلوچستان میں صرف ان کے پارٹی کی بولی بولی جائیگی۔ اس بات کا برملا اظہار ڈاکٹر مالک نے حال ہی میں تربت میں منعقدہ گرینڈ شمولیتی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا  کہ” ہمیں تمہارے لڑکوں کا پتہ ہے کہ کون ہیں اور کہاں چھپے ہوئے ہیں۔ ہم بھی ایک ہزار نوجوانوں کا فورس بنا سکتے ہیں۔”
اڈاکٹر مالک کے ان گیدڑ بھبکیوں سے صاف ظاہر ہیکہ ان کی پارٹی کا جاسوسی نیٹورک فعالیت کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہے اور انھیں محض اس بات کا افسوس ہیکہ بقول ان کے یہ دو لڑکے ان کی جاسوس نگاہوں سے کیسے اوجھل ہو کر ابھی تک بچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ جبکہ کہ دوسری جانب وہ ایک باقاعدہ ڈیتھ اسکواڈ کی تشکیل کا اعلان بھی فرما رہے ہیں جس کا لازمی ہدف وطن زادے با شعور بلوچ ہی ہونگے۔

ایک طرف نیشنل پارٹی چوروں اوچکوں ، ڈاکوؤں پیشہ ور قاتلوں اور نظریاتی کارکنوں کے اغوا وقتل میں ملوث بدمعاشوں کو اپنی پارٹی میں اکھٹا کرکے بلوچستان کے کونے میں اپنی جاسوسی نیٹورک کو وسعت دے رہے ہیں  تاکہ بلوچستان کے کسی بھی کونے سے سیاسی شعور کے چشموں کو پھوٹنے سے پہلے ہی دفنانے کی کوششیں کی جائےجبکہ دوسری طرف اپنے آپ اور اپنی پارٹی کو مظلوم ظاہر کرنے کا ڈرامہ رچا کر کہہ رہے ہیں کہ آزادی پسند جماعتیں بلوچستان میں سیاسی عمل پر قدغن لگا رہے ہیں۔ ڈاکٹر مالک نے 2 جون کو اپنی پارٹی کے نسیم جنگیان کی یاد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ “ سرکار اسٹیبلشمنٹ اور بی ایل ایف ملکر مکران میں سیاسی عمل پرقدغن لگا رہے ہیں”

ڈاکٹر مالک صاحب صحیح تو کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان میں سیاسی عمل پر قدغن تو لگائی جا چکی ہے مگر اس میں ریاست کی بی ٹیم کا رول آپ کی پارٹی ادا کر رہی ہے۔ تاکہ آپ کا پارٹی اور  اقتدار کے امکانات پر تسلط برقرار رہے اور کوئی سیکنڈ ٹیر لیڈرشپ پیدا ہی نہ ہو سکے۔ جہاں تک بات آپ کی اور آپ کے پارٹی کے مظلوم بننے کا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ محض سیاسی اختلاف اور حکمت عملی میں اختلاف کیوجہ سے ان کی پارٹی کے لوگوں جو نشانہ بنایا جارہا ہے تو ان کا یہ دلیل سراسر گمراہ کن ہے۔

اگر واقعتاََ نیشنل پارٹی اسی لیے آزادی پسند تنظیموں کے نشانے پر ہے تو پھر مالک صاحب کا یہ سوال خود ان کے جواب ہے کہ  “میں حیران ہوں کہ کیوں نیشنل پارٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ دوسری پارٹیوں کو سیاست کرنے کی آزادی دی گئی ہے” ( گرینڈ شمولیتی جلسے میں ڈاکٹر مالک کا خطاب)۔ ڈاکٹر صاحب سیاست کرو۔ جتنا جی چاہے کرپشن کرو۔ مگر وطن کے دشمنوں کے ساتھ ملکر وطن زادوں کے خلاف سازشوں سے بعض رہو۔ مانا کہ تو اسی کی دہائی سے  قوم پرستی کا لبادہ اوڑھ کر ریاست کا آلہ کار بنے ہوئے ہو مگر اب آپ کا چہرہ قوم کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔

بہرحال قومی شعور کی چلنی سے چھانٹی کا سفر جاری ہے۔ راستے نکلتے رہیں گے۔  مفاد پرست پرست، فرقہ اور ذات پات پرست اوردو نمبر پسپسا ہوتے جائیں گے۔ قومی آزادی عقل و شعور اور حکمت کے ذریعے راستہ بنائے گا۔ جن کے مفاد پر زد پڑے گی وہ چیخیں گے، چِلّائیں گے۔ اپنی بقاء کی جنگ لڑیں گے۔ بند دماغوں کو نئے نئے نعرے دیکے اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں کریں گے۔ مگر وقت انہیں کُچلتا ہوا آگے بڑھ جائے گا۔ یہی اس سر زمین اور اس کے فرزندوں کا مزاج ہے۔ یہ سر زمین اپنی عظمت کے رستے میں کھڑی دیواروں کو اسی طرح گراتا ہے۔ اسے جذبہ قربانی اور وطن سے محبت کے جذبے سے لیس ہوکر آگے بڑھنے والے پسند ہیں۔ منافق اور وطن فروش نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں