بک رویو : سامراج کی موت | مصنف: فراز فینن رویو: دوستین کھوسہ

544

بک رویو : سامراج کی موت

مصنف: فراز فینن
تحریر: دوستین کھوسہ

دی بلوچستان پوسٹ

فینن کی یہ کتاب الجزائر کی تحریک آزادی پر لکھی گئی ہے۔ کتاب کے ریوو سے پہلے تھوڑا الجزائر کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

الجزائر :
الجزائر مغربی افریقی ملک ہے۔ یہ افریقہ اور عرب دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کی 99 فیصد لوگوں کا مذہب اسلام ہے اور 1 فیصد لوگ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں جن میں عیسائی، یہودی شامل ہیں۔ الجزائر میں(Saharan desert) سہارن صحرا اور میڈیٹیرین کوسٹل لائن ( Mediterranean Coastal line) اور پہاڑی علاقے موجود ہیں۔ الجزائر کی جیوگرافیکل لوکیشن کی وجہ سے اس سرزمین پر مختلف ادوار میں بہت سے قبضہ گیر گزرے جن میں رومن ، ترک اور فرانسیسی شامل ہیں۔

الجزائر کی قومی زبان عربی ہے اور الجزائری نسلاً عرب لوگ ہیں۔ الجزائر کے ہمسایہ ممالک میں تیونس، لیبیا، نائجر ، فرانس اور سپین شامل ہیں۔

فرانز فینن :
کتاب کے رائٹر واجہ فینن ایک ماہر نفسیات ، سیاسی ورکر ، سیاسی و سماجی فلاسفر، مارکسسٹ ، قبضہ گیریت اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف ایک عملی جہدکار تھے۔ انہوں نے الجزائر کی تحریک آزادی میں عملا ایک سرمچار حصہ لیا۔ 20 جولائ 1925 میں کارائب میں پیدا ہوئے۔ وہ ویسٹ انڈین سیاہ فام تھے۔ وہ فرانس میں ماہر نفسیات کا کورس کر رہے تھے۔جب ماہر نفسیات بننے میں ایک سال رہ گیا تھا انہوں نے پڑھائی چھوڑی اور الجزائر کی جدو جہد آزادی میں عملا شامل ہوئے۔ وہ “المجاھد” نامی اخبار میں مضامین لکھا کرتے تھے۔ فرانز فینن ، برٹرینڈ رسل، ژان پال سارتر اور البرٹ کامیو گزشتہ صدی کے بہت بڑے فلسفی تھے۔

فرانز فینن کی مشہور کتابیں درج زیل ہیں۔

‏1) The wretched of the Earth
‏2) Black skin , white masks
‏3)A Dying Colonialism
‏4) Towards the African Revolution
‏5) Alienation and Freedom
‏6) The Fact of Blackness
‏7) Decolonizing madness

فرانز فینن کی موت 6 دسمبر 1961 کو کینسر کی وجہ سے ہوئی ۔انکی عمر اس وقت 36 برس تھی۔ ان کو جب کینسر کا علم ہوا تو انہوں نے الجزائر کی جنگ آزادی کی قیادت کو کہا کہ انہیں جنگ آزادی میں عملا ایک جہدکار کے طور پر شامل کیا جائے کہ وہ ایک بند کمرے میں میز کے پیچھے کی موت نہیں چاہتے۔

انہوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں” بن مہدی ” نام کے قبرستان میں دفنایا جائے جہاں جنگ آزادی کے تمام شہیدوں کی آخری آرام گاہ ہے۔ اس قبرستان کا نام” بن مہدی” ایک الجزائری جنگ آزادی کے شہید سرمچار کے نام سے رکھا گیا جس نے بہادری اور دلیری سے فرانسیسی افواج کا مقابلہ کیا اور شہید ہوکر امر ہوگیا۔ فینن کو وہی بن مہدی قبرستان میں دفنایا گیا۔ فینن کو الجزائری معاشرے میں فرانز ابرہیم فینن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

اب اس کتاب میں استعمال ہونے والے کچھ اصطلاحات کے بارے میں جاننے کی کو شش کرتے ہیں۔

سامراج ( Imperialism ) :
سامراج سرمایہ داری نظام کی سب سے جدید ترین اور ظالمانہ ترین شکل ہے۔ اس میں دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ دار دنیا کے لوگوں کی سرزمین پر قبضہ کرنے کے لیے اتحاد کر لیتے ہیں۔ اور اس سے وسائل کی لٹ وپل کی جاتی ہے اور سستی مزدوری، تجارتی منڈی اور معدنیات حاصل کیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں کا یہ اتحاد سامراج کہلاتا ہے۔ اور قبضہ کیے گے ملکوں پر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے حکومت کی جا تی ہے۔ دنیا کے جدید سامراجوں میں پاکستان اور ایران ، جنہوں نے بلوچستان پر قبضہ کیا ہے۔ بھارت جو کہ کشمیر کے علاؤہ بہت سے ریاستوں پر قبضہ گیر ہے۔اسرائیل جو کہ فلسطین پر قبضہ گیر ہے۔ترکی جو کردوں کی سر زمین پر قابض ہے۔ اسی طرح امریکہ ، اٹلی ، جاپان ، برطانیہ ، فرانس ، چین سب سے بڑا سامراج ہے۔

نوآبادیاتی نظام (colonialism) :
نوآبادیاتی نظام سامراج کی پیداوار ہے جس وقت سامراج وجود میں آیا تو اسے آپنی تجارتی منڈیوں ، خام مال ، سستی مزدوری ، وسائل ، معدنیات کی ضرورت پڑی تو اسنے دنیا کے مختلف قوموں ، ملکوں ، ریاستوں پر فوج کشی کرکے طاقت کی بنیاد پر قبضہ کر لیا۔ اور اس قبضہ سے مالی ، اقتصادی ، تجارتی ، فوجی فائدے حاصل کرنے لگا۔
قوموں ، ملکوں اور ریاستوں پر قبضے کرکے اور وہاں کے لوگوں کو غلام بنا کے وسائل کی لٹ و پل کے عمل کو نو آبادیاتی نظام کہتی ہیں۔

جن قوموں کو پر قبضہ کیا جاتا ہے ان کو نوآبادی ، دیسی باشندہ ، یا کالونائزڈ لوگ کہا جاتا ہے۔ اور قبضہ گیر کو کالونائزر یا نوآبادکار کہا جاتا ہے۔

رجعت پسند :
یہ حاضر نظام سے اتنے ہی نا خوش ہو تے ہیں جتنا کہ ترقی پسند مگر ان دونوں رویوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ترقی پسند نیا اور الگ نظام متعارف کروانا چاہتے ہیں جبکہ رجعت پسند پرانے ماضی کے نظام کے بحالی چاہتے ہیں۔

تیسری دنیا :
تیسری دنیا سے مراد وہ ممالک جن کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ، جو غریب اور پسماندہ ہیں۔ جو کبھی غلام رہی ہیں ان میں افریقہ اور ایشیا کے ممالک شامل ہیں۔

بک ریویو :
فینن بیان کرتے ہیں کہ ہم تیسری دنیا کے لوگوں کو قبضہ گیروں کو نہ صرف اپنی سرزمینوں سے بھگانا چاہیے بلکہ ان کے دیے گئے ہر نظام کو بھی ختم کرنا چاہیے اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہمیں جنگ لڑنے اور جانیں دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر ہمیں ان سے جنگ ختم کردینا چاہیے ان کے ساتھ مل جانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم گورے بالوں والوں کو نکال کر کالے بالوں والوں کو حکومت میں بٹھا دیں اور نظام وہی کا وہی ہو اور صرف چہرہ تبدیل ہو جائے تو ایسے آزادی کا کوئی فائیدہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں پہلے یورپ ایک تھا پھر امریکہ نے خود کو یورپ میں ڈھال دیا پھر یورپ دو ہوگئے۔ اب تیسری دنیا کے لوگوں کو یہ غلطی نہیں کرنی چاہیے ایسا نہ ہو کہ یورپ تین ہو جائے۔ فینن کہتے ہیں کہ یورپ کا نظام انسانیت کی تذلیل ہے کیونکہ وہ انسانیت کو سرمایہ داری نظام کی بھینٹ چڑھاتی ہے ، اس میں انفرادیت ہے اور اس میں کالے اور گورے کا فرق ہے ، نسل کا فرق ہے اور اس میں طاقت کی بنیاد پر دوسرے قوموں کی سرزمین پر جبری قبضے ہیں اور وسائل کی لٹ وپل ہے۔ فینن کہتے ہیں کہ ہمیں آزادی حاصل کرکے ایک نیا معاشرہ تعمیر کرنا ہوگا جس میں زندہ انسان ہو، زندہ معاشرہ ہو اور ایک ایسا نظام ہو جس میں انسانیت کی خدمت ہو اور امن اور خوشحالی ہو۔ جس میں کالے ، گورے ، رنگ و نسل نہ ہو جس میں طاقت کی بنیادوں پر دوسرے کی سرزمین پر قبضہ نہ ہو۔ فینن کہتے ہیں ہم اصل میں اس وقت آزاد ہوں گے جب ہم قبضہ گیر کی دی گئی سوچ، تہزیب، نظام ، تعلیمی نظام ہر چیز ختم کریں گے۔

جب جنگ آزادی کا آغاز کیا گیا تو جو لوگ اس جنگ آزادی کے مخالف تھے ان کا مؤقف تھا کہ جنگ آزادی کی قیادت لوگوں کے خون کی پیاسی ہے، سرمچار وحشی ہیں، جنگلی ہیں ان کا خاتمہ ہونا چاہیئے اور اس کے علاوہ جو جمہور نواز قوتیں تھیں یعنی جو فرانس کی دی گی نام نہاد جمہوریت کے حق میں تھے ان کا مؤقف تھا کہ اس جنگ میں الجزائر کے لوگوں کا خون بہہ رہا ہے ، جنگ آزادی کی قیادت کی وجہ سے الجزائری لوگ بے پنا ہ مشکلات کا شکار ہیں ان کو جنگ کا راستہ ختم کر دینا چاہیے۔ اور فرانسیسی حکومت تھا وہ جنگ آزادی لڑنے والے سرمچاروں کو دہشتگرد، باغی ، وحشی کہہ کر پکارتا تھا اور ان کے خلاف سخت کے سخت فوجی آپریشن سرانجام دے رہا تھا اور ان کے ساتھ معصوم شہریوں کا خون بہا رہا تھا اور قتل عام کر رہا تھا۔

فینن کہتے ہیں کہ جب جنگ آزادی میں قیادت نے اپنے سرمچاروں کو غیر قانونی اور غیر انسانی طریقے استعمال کرنے سے سختی سے منع کیا اور کہا اگر ہم بھی اس جنگ میں فرانس کی طرح لڑے تو ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔دوسرا ہمیں اس جنگ میں انٹرنیشنل جنگی قانون کی پاسداری کرنی ہے تاکہ عالمی دنیا کی سیاسی حمایت حاصل کی جا سکے۔ یہاں پر ایک واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ایک دفعہ فرانسیسی افواج اور الجزائری مجاہد سرمچاروں کے درمیان جھڑپ میں اسلحہ ختم ہونے پر 30 فوجیوں نے سرنڈر کردیا جس پر جنگجووں نے طیش میں آکر ان کو زدو کوب کا نشانہ بنانا شروع کیا تو وہاں موجود ڈاکٹر نے نہ صرف ان کو تشدد سے بچایا بلکہ ابتدائی طبی امداد دی اور ان کو زخمیوں کے کیمپ تک پہنچایا اور اس مشن میں دو سرمچار مجاہد شہید بھی ہوئے۔ دوسری طرف فرانسیسی وزیر دفاع نے میڈیا کے سامنے تصویریں دیکھا کر پروپیگنڈا کرنا شروع کیا کہ سرمچار اس کے فوجیوں کو زدو کوب کرتی ہیں وہ وحشی ہیں ، جنگلی ہیں اور دہشتگرد ہیں جو کہ سراسر جھوٹ اور دھوکہ تھا۔

فینن ایک اور واقعہ بھی بیان کرتے کہ جب تحریک میں لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے تو ان پر کنٹرول کرنا بھی کافی مشکل ہوجاتاہے جیسے ایک دفعہ دو جنگجو ایک ساتھ ہوتے ہیں اکیلے ،تو ایک جنگجو دوسرے کو گولی ماردیتا ہے جب قیادت اس سے سوال پوچھتی ہے کہ تم نے ایسا کیوں کیا تو وہ بولتا ہے کہ وہ فرانس کو خبریں دے رہا تھا اور ہمارا غدار تھا۔ اس لیے اسنے اسکو گولی ماردی اس صورت میں ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے قیادت کے پاس ضمیر کی آواز پر فیصلہ کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا۔

اس جنگ میں فرانس انتہائی درندگی سے بےگناہ لوگوں کا خون بہا رہا تھا ، نوجوانوں کو لاپتہ کرکے ٹارچر سیلوں میں ڈال رہا تھا، عورتوں کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنا رہاتھا۔ فینن ایک واقع بیان کرتا ہے کہ ایک دفعہ ایک سویڈش صحافی کو آیک فرانسیسی ٹارچر سیل میں جانے کا موقع ملا ، وہ لکھتی ہے وہاں بہت سے لوگوں کو ٹارچر کا نشانہ بنایا جارہاتھا۔ اور اگلی قطار میں ایک سات سال کا بچہ بیٹھا تھا جس کو سخت ٹارچر کیا گیا تھا اور اس کے جسم پر اس ٹارچر کے اور زخموں کے نشان تھے۔ اس کے باپ اور بھائی اور ماں کو ریپ کے بعد قتل کردیا گیا تھا اور بچے کو ٹارچر اس لیے کیا جارہا تھا کہ وہ اس سارے واقعے کو یاد رکھے اور کبھی نہ بھول سکے۔ اس سب کا مقصد فرانسیسی فوج کی دلیری اور بہادری کو ظاہر کرنا تھا کہ الجزائری لوگوں کے دلوں میں خوف بیٹھ جائے۔

صحافی بچے سے پوچھتی ہے کہ تم یہاں پر کیسا محسوس کررہے ہو اور تمہاری آرزو کیا ہے تو وہ بچہ بولتا ہے اگر مجھے یہاں سے نکلنے کا موقع ملا تو میں بڑا ہوکر فرانسیسی فوجیوں کا گلا کاٹ دوں گا۔ فینن کہتے ہیں بچہ اس معاملے کو زندگی بھر نہیں بھولے گا.

فرانسیسی جب 1830ء میں الجزائر پر قابض ہوۓ تھے تب الجزائریوں کو احساس نہیں ہوا جب انہیں احساس ہوا تب فرانسیسیوں کی نسلیں الجزائر میں آباد ہوچکے تھے۔ مگر اب الجزائر بدل رہا تھا اب کی نوجوان جنریشن پچھلی جنریشنوں سے کافی مختلف تھی اس کا مقصد ہی الجزائر کی آزادی تھا جس کی وہ جدو جہد کررہے تھے ۔ جنگ کی شدت کو دیکھتے ہوے فرانس نے الجزائر کے لیے 80 پارلیمنٹ کی نشستیں رکھیں۔ جو کہ سراسر دھوکہ دہی اور چال تھی مگر الجزائری اب بالکل سمجھ چکے تھے کہ ان کی منزل فرانس کی پارلیمنٹ نہیں بلکہ آزادی کا حصول ہے۔

کسی بھی معاشرے کی رہن سہن، تہذیب و تمدن اور ثقافت کی پہچان اس معاشرے کے لوگوں کے لباس سے معلوم کی جا سکتی ہے۔ ہر معاشرے اور قوم کی اپنی تہزیب و تمدن اور لباس ہوتا ہے جس سے اس معاشرے کی پہچان کی جا سکتی ہے مثال کے طور پر اگر کوئی سیاح مسلم معاشرے میں آۓ تو اسکو اس چیز سے علم نہیں ہوگا کہ پانچ وقت کی نماز پڑھنے والے یا رمضان کے روزے رکھنے والے یا خنزیر کا گوشت نہ کھا نے والے لوگ مسلمان ہیں بلکہ جب وہ اس معاشرے میں لوگوں کا لباس اور عورت کا پردہ دیکھے گا تب اسکو معلوم ہوجاۓ گا کہ وہ مسلم معاشرے میں ہے۔ عرب ممالک میں عورت پردہ کرنا لازمی سمجھتے ہیں جوکہ ان کو دوسرے معاشروں سے الگ بناتا ہے۔ فرانسیسی جب الجزائر پر قبضہ گیر ہوئے اور یورپیوں کو الجزائر میں آباد کیا تو ایک عورت تھی جو دونوں معاشروں میں فرق پیدا کر رہی تھی۔ الجزائری عورت کا پردہ وہ واحد فرق تھا جو یورپی اور الجزائری پہچان کو الگ الگ کررہا تھا ۔

گویا فرانسیسیوں نے پہلی یغگار عورت کے پردے کے اوپر کی۔ ان نے بہت سے ماہر عمرانیات بلاۓ، اس متعلق راۓ دریافت کیں اور سب نے اسے یہی مشورہ دیا کہ اگر فرانسیسی الجزائر پر دائمی قبضہ چاہتے ہیں تو انہیں الجزائری عورت کا لباس بدل کر اسے یورپی کرنا پڑےگا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ایک تو اس سے یورپی اور الجزائری عورت کا فرق ختم ہوگا دوسرا یہ کہ جب عرب مرد اسکو روکے گا اور عورت اس کی بات نہیں مانے گی تو اس سے اس معاشرے میں بگاڑ آئے گا اور خاندانوں کے آپسی مسلے اتنے بڑھ جاینگے کہ ان کا اتحاد ٹوٹے گا جس کا فائدہ فرانس کو ہوگا ۔ آپسی مسلوں کی وجہ سے اسی کی طرف توجہ نہیں جائیگی۔ اس مقصد کے لیئے اس نے سب سے پہلے یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ الجزائری مرد اپنے عورتوں کو قید کرکے رکھتے ہیں اور ان کو غلام بنا کے رکھا جاتا ہے عورتوں کے بنیادی حقوق غصب کیے گیے ہیں اور فرانس الجزائری عورتوں کو حقوق دلانا چاہتا ہے اور ان کو آزادی دلانا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے خیراتی پروگرام شروع کرواے وہ گھر گھر جاکر یہی پروپیگینڈا کرتے کہ الجزائری عورتیں بہت خستہ حال زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے حقوق پر قبضہ کیا گیا ہے۔ دوسرا انہوں نے این جی اووز کا سہارا لیا۔ فرانسیسی حکومت نے سرکاری دفاتر اور تعلیم و صحت کے محکموں میں عورت کے لیے نوکریاں رکھیں اور عورتوں کو بھرتی کیا جانے لگا۔

اس کے علاوہ سرکاری دفتروں میں موجود الجزائری ملازمین کو سرکاری Function پر اپنی بیویوں کو لازمی لانا کہا گیا اگر مقامی لوگ ایسا نہ کرتے تو انہیں یہ تو نوکری سے نکال دیا جاتا یہ پھر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔ کچھ جگہ ایسے واقعات بھی ہوئے کہ جب سرکاری ملازمین اپنی بیویوں کو لے پروگراموں میں لے آتے تو پروگراموں کے دوران ان کی ڈیوٹی دوسری طرف لگا دی جاتی اور بیوی کو اکیلا چھوڑنا پڑتا ایسی صورت میں مقامی باشندے کے پاس دو آپشن ہوتے یا تو وہ اپنے ہیڈ کو صاف انکار کرکے نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے یا پھر ہیڈ کی بات مان کر اپنی اور اپنی بیوی کی عزت نفس کو نیلام کردے ایسی صورت نے مقامی باشندے کو کافی ذہنی زدو کوب کا نشانہ بنایا۔ یورپیوں نے الجزائر کے پڑھے لکھے طبقے یعنی ڈاکٹرز ، وکیلوں اور سرکاری افسران کو خاص ٹارگٹ کا نشانہ بنایا۔ یورپی انکو بولتے کم نسل آسمان پر بھی پہنچ جاے تب بھی اسکی عادتیں وہی زمین والے ہوتے ہیں یا پھر انکو کہا جاتا کہ تم لوگ پڑھ لکھ کر بھی وہی عرب وحشی ہی رہے ہو کیونکہ وہ اپنی بیویوں کو سرکاری پروگراموں میں لےکر نہیں جاتے تھے۔

شروع شروع میں فرانس کو اپنے مشن میں بہت کامیابی حاصل ہوا۔ سب سے پہلے آزاد خیال عورتوں نے اسکے بات پر لبیک کہا۔ پھر دوسرے عورت بھی فرانس کے بہکاوے میں آگئے۔ وہ بازاروں، گلیوں اور محلوں میں بغیر پردے اور یورپی لباس میں نظر آنے لگے۔ جن کو دیکھ کے الجزائر میں آباد یورپی باشندے لطف اندوز ہوتے اور کہتے کہ ہاۓ کیسی چیزیں جاہل عربوں کے پاس ہیں۔ ان کو یورپی پولیس اور فوجی اہلکار گھور گھور کر دیکھتے۔ اور ان کے مرد ان کو ایسا کرنے سے روکتے اور ان کو گھر کی چار دیواری میں رہنے کا بولتے مگر وہ جب مانتے تھے تو اس سے ان کے خاندان میں جھگڑے ہورے تھے جو کہ فرانسیسی حکومت کا مقصد تھا۔

اب جب لبریشن فرنٹ کی قیادت نے الجزائر کی یہ صورتحال دیکھی کہ فرانس کس طرح ان کے معاشرے پر حملہ آور ہے تو انہوں نے عورت کو تحریک آزادی اور قومی جدو جہد میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ شروع میں قیادت اس بات پر کنفیوژن کا شکار رہی کہ آیا عورت سے کس طرح کا کام لیا جا سکتا ہے۔ کیا اسے گوریلہ جنگ میں شریک کیا جائے یا پھر اس سے جاسوسی، طبی امداد ، اصلح کی ترسیل کا کام لیا جاے۔ وہ اس طزبب کا بھی شکار رہے کہ آیا عورت اپنی زمہ داریاں ادا بھی کر سکے گی یا نہیں۔ مگر وقت کے ساتھ عورت نے یہ ثابت کردیا کہ وہ ہر قسم کے امتحان میں ثابت قدم رہی۔

لبریشن فرنٹ کی قیادت نے الجزائری عورتوں کو بھرتی کرنا شروع کر دیا اور بڑی تعداد میں عورتوں نے اس کی آواز پر بھرتی ہونا شروع ہوا۔ وہ عورت جو کبھی چار دیواری میں رہنے کا عادی تھی اب وہ سنگلاخ پہاڑوں کی چٹانوں پر چڑھتی نظر آتی تھی۔ وہ گوریلہ ٹریننگ حاصل کرتی نظر آتی تھی۔ اور جنگ میں بذات خود شامل ہوتی نظر آئی۔ وہ زخمیوں کی طبی امداد فراہم کرتی۔ وہ دشمن کے چیک پوسٹوں اور چھاؤنی کی جاسوسی کرتی اور لبریشن فرنٹ کی قیادت کو آکر بتاتی۔ وہ اسی یورپی لباس اور یورپی پرس لے کر اس کے چیک پوسٹ سے گزرتی اور فرانسیسی فوجی صرف اس کا حسن تکتے رہ جاتے ، ان کو اس بات کا شک ہی نہ ہوتا کہ جو عورت ان کے فرانسیسی لباس میں ملبوس جارہی اس کے پرس میں ہینڈ گرنیڈ یا خفیہ خطوط ہیں۔ اس طرح لبریشن فرنٹ نے دشمن کی چالوں کو ناکام کرکے الٹا اسی کے خلاف استعمال کیا۔ اس طرح فرانسیسی فوج اور پولیس پر جب حملوں کی شدت میں اضافہ ہوا تو اسکی خفیہ ایجنسیاں متحرک ہوئے انہوں نے شک کی بنیاد پر کچھ خواتین کو گرفتار کیا جن پر حد سے زیادہ ٹارچر کیا گیا تو وہ بتانے پر مجبور ہوئیں۔ پھر فرانسیسی فوج کو معلوم ہوا کہ ان کی چالیں انہیں پر ہی الٹی ہوئیں۔ اب فرانس بہت بوکھلاہٹ کا شکار ہوا اس نے ہر یورپی لباس والی عورت کی تلاشی شروع کردی۔ جس سے اسکی اپنی آباد کی ہوئی یورپی آبادی بھی متاثر ہوئی اور انہوں نے بھی اس عمل پر ناراضگی کا اظہار کیا۔

اب لبریشن فرنٹ نے جب اس صورتحال کو دیکھا تو اس نے پردہ میں عورت کو زمہ داری سونپیں جس کو فرانسیسی اب بالکل شک کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔ اب عورت جسم سے پستول یا بمب باندھ کر چیک پوسٹوں سے گزرتی چونکہ اسکے ہاتھ خالی ہوتے جوکہ پردہ کے باہر کر لیتی تو کوئی اسکو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھتا تھا اس طرح الجزائر کی جدو جہد آزادی میں عورت نے مرد کے ساتھ شانہ بشانہ حصہ لیا اور مرد کی طرح قربانیاں اور جدوجہد پیش کی۔

الجزائر ایک قدامت پسند معاشرہ تھا وہ کسی بھی قسم کی معاشرتی تبدیلی بہت جلد قبول نہیں کرتا تھا۔ الجزائر میں فرانس نے 1956 میں ریڈیو لایا ۔ اس ریڈیو کو سب سے پہلے الجزائر میں آباد فرانسیسی یورپی لوگوں نے خریدا۔ ریڈیو کی تمام نشریات فرانسیسی زبان میں ہوتے تھے اور فرانسیسی کلچر کی عکاسی کرتے تھے۔ ریڈیو پہ فرانس کے جنگی ترانے ، نغمے اور فرانسیسی جرنیلوں کے جنگی کہانیاں سناے جاتے تھے اور انکو خراج تحسین پیش کیا جاتا تھا جنہوں نے ہزاروں بےگناہ الجزائری عوام کو قتل کیا تھا۔ ریڈیو پر فرانس کا جنگی پروپیگنڈا بھی کیا جاتا تھا۔ جھوٹی خبریں چلای جاتے تھے۔ روزانہ کی بنیاد پر ایسے خبریں چلاے جاتے تھے کہ جنگ آزادی لڑنے والے مجاہد سرمچاروں کے اتنے کیمپ تباہ کردیے گئے اتنے سرمچار مارے اور گرفتار کیے گئے۔ ریڈیو کے زریعے گویا فرانسیسی انفارمیشن اور کمیونیکیشن وار لڑ رہا تھے۔ ریڈیو نے فرانسیسی لیڈروں اور ان کے لوگوں کو آپس میں جوڑ دیا تھا۔ یہ صورتحال مقامی لوگوں کو کافی احساس کمتری میں شکار کرہی تھی۔ وہ جب یورپیوں کی زمینوں پر کام کرنے جاتے تھے وہاں فرانسیسی ریڈیو پر چلتی نشریات سنتے تو انہیں احساس کمتری محسوس ہوتی تھی اور جب ان کے سامنے جنگ کی خبریں چلتی جن میں سرمچاروں کے مرنے اور کیمپ تباہی کی اطلاعات ہوتے تو مقامی باشندے ان کو سن کر سخت مایوسی کا شکار ہوتے اور ان کے یورپی مالک ان کو تعنہ دیتے کہ ہم کتنے تہذیب یافتہ ، مہذب اور طاقتور ، جنگجو ہیں اور تم عرب لوگ جاہل ،گوار اور غیر مہزب ہو۔ اس صورتحال نے مقامی لوگوں کو بہت زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار کیا۔

الجزائر کے لوگوں نے شروع میں بالکل بھی ریڈیو کو نہیں خریدا۔ ایک وجہ تو انکے مالی حالات دوسرا اسکی وجہ الجزائر ایک اسلامی قدامت پسند معاشرہ تھا وہ ریڈیو کو جدید سائنسی ایجاد سمجھنے سے زیادہ مزہب کے خلاف ایک سازش سمجھتے تھے۔ ایک الجزائری سے ایک بار پوچھا گیا کہ تم ریڈیو کیوں نہیں خریدتے اسکی مالی حالت بھی اچھے تھے یعنی وہ مالدار تھا۔ تو اس نے کہا ایک تو اسکی زبان فرانسیسی ہے دوسرا اس میں پروگرام فرانسیسی کلچر والے شائع کیے جاتے ہیں جوکہ ہم خاندان میں بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے ایک تو وہ ہمارے کلچر سے مختلف ہوتے ہیں دوسرا ہمارے مزہب سے مختلف ہوتے ہیں۔ تو اس سے پوچھا گیا کہ مزاحیہ پروگرام تو مزہب کے خلاف اور فرانسیسی کلچر کی عکاسی تو نہیں کرتے انکو کیوں نہیں دیکھا جاسکتا تو اس نے کہا جب مزاحیہ پروگراموں میں ہنسنے کہ باتیں کی جاتے ہیں جن پر چھوٹے ہنستے ہیں تو خاندان میں موجود بڑے اس بات پر برا مناتے ہیں۔ اسنے کہا یہ ریڈیو ہمارے سوشل سسٹم کے مطابق نہیں یہ یورپی لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے۔

لبریشن فرنٹ کی قیادت اس صورتحال کو قریب سے مشاہدہ کر رہی تھی کہ فرانس کس طرح انفارمیشن اور کمیونیکیشن وار لڑ رہا ہے جس سے الجزائری عوام کس طرح احساس کمتری اور مایوسی کا شکار ہورہے ہیں۔ لبریشن فرنٹ نے اپنا ریڈیو چینل کا آغاز کیا جس کی نشریات عربی زبان میں رکھے گئے۔ اس ریڈیو چینل کے ذریعے مجاہدین اپنا جہادی لٹریچر ، تقاریر اور آگاہی پروگرام چلاتے تھے اسکے علاوہ جنگی محاذ کی سچی خبریں شائع کرتے تھے جو فرانسیسی پروپیگنڈا کو کاونٹر کرتی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے الجزائری لوگوں نے جوق درجوق ریڈیو خریدنا شروع کردیا۔ کہتے ہیں الجزائری اتنی تعداد میں ریڈیو خریدنے لگے کہ مارکیٹ میں ریڈیو شارٹ ہو گئے جس پر لوگ پرانے استمعال شدہ ریڈیو خریدتے تھے۔ لبریشن فرنٹ کے ریڈیو پروگرام سے الجزائری معاشرہ جو مایوسی اور احساس کمتری کا شکار تھا ان کا لبریشن فرنٹ کی قیادت اور مزاحمت کرنے والے سرمچاروں پر اعتماد شروع ہوا۔ الجزائری لوگ اب رات کو خاندان پورے کے ساتھ بیٹھ کر ریڈیو چینل کے ذریعے جنگی قیادت کے انٹرویو ، خبریں ، پروگرام اور الجزائری کلچر کے پروگرام دیکھتے تھے۔ گویا ریڈیو نے الجزائری معاشرے کو آپس میں اور لبریشن فرنٹ کی قیادت کے ساتھ جوڑنا شروع کردیا۔ لوگ ہر رات پورے خاندان کے ساتھ خبریں اور پروگرامز اور تبسرے سنتے تھے۔ جب فرانس کو اس چیز کا علم ہوا تو اسنے جنگ عظیم میں استمعال کی گئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے الجزائری ریڈیو چینل کے دفتر کو تلاش کر لیا وہاں موجود صحافیوں کو شہید اور لاپتہ کردیا اور دفتر کو تباہ کردیا۔

جس کا اثر الجزائری معاشرے پر کچھ یوں پڑا لوگ بے تابیِ سے چینل نہ ملنے پر فریکوئنسی تبدیل کرنے لگے، سارا سارا دن چینل کے انتظار میں بیٹھے رہتے مگر ان کو ریڈیو پر کچھ سنائی نہ دیتی۔ رات کو اکھٹے بیٹھ کر خبریں سننے والے خاندان سخت پریشانی اور اضطراب کا شکار رہنے لگے۔ ان کو سمجھ نہیں لگ رہی تھی کہ ان کا پسندیدہ ریڈیو چینل کیوں بند ہوگیا ہے۔ آخرکار فرانسیسی چینل پر یہ خبر چلنے لگی باغیوں کے ریڈیو دفتر پر فرانسیسی افواج نے حملہ کرکے اسکو تباہ کردیا۔ یہ خبر مقامی لوگوں ہر سخت تکلیف دہ گزری وہ اس خبر سے سخت پریشانی کا شکار ہوئے۔ اب ان کو فرانسیسی چینل سے خبریں سننے کو ملتی تھیں جن میں پروپیگنڈا کیا جاتا تھا اور روزانہ کی بنیاد پر سرمچاروں کو شہید کر نے کی اطلاعات دی جاتی تھیں۔ کافی عرصے تک مقامی لوگوں کو زہنی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر لبریشن فرنٹ کی قیادت نے برادر اسلامی ملک تیونس کی مدد سے دوبارا ریڈیو چینل کا آغاز کیا اور اس بار پروگرام نہ صرف عربی زبان بلکہ فرانسیسی زبان میں بھی شروع کیا جس سے یہ ہوا کہ جو عرب شخص فرانسیسی زبان سے اس لئے نفرت کرتا تھا کہ وہ ایک قبضہ گیر کی زبان ہے اب اسے فرانسیسی زبان میں اپنا جہادی اور مزاحمتی لٹریچر نظر آنے لگا۔ لبریشن فرنٹ کی قیادت کے اس عمل سے وہ یورپی جو عرب کو یہ تعنہ دیا کرتے تھے ہماری زبان تمسے افضل ہے اب وہ ان کی اپنی زبان میں الجزائری مزاحمتی لٹریچر دیکھ کر نفسیاتی شکست سے دوچار ہونے لگے۔

الجزائر میں پہلے فرانسیسی اخبار شائع ہوا کرتے تھے جوکہ فرانسیسی زبان میں شائع ہوتے تھے ۔ جن میں فرانس کی جنگی کامیابیاں کے خبریں اور پروپیگینڈا ہوا کرتے تھے اسکے علاوہ الجزائری لوگوں کو نفسیاتی طور پر احساس کمتری دلانے کے لیے مضامین شائع کئے جاتے تھے۔ لبریشن فرنٹ نے اس کے مقابلے میں اپنا اخبار اور رسائل شائع کئے لبریشن فرنٹ کی قیادت ہی اخبارات مقامی افراد کے زریعے تقسیم کراتی تھے۔ جب لبریشن فرنٹ نے اپنا اخبار شائع کروایا تب الجزائری لوگ اسکو دھڑا دھڑ خریدتے تھے یہاں تک کہ اسکی کمی ہو جاتی تھی اور فرانسیسی اخبار کو کوی بھی خریدنے والا کوئی بھی نہیں ہوتا تھا۔ فرانس کو جب اس بات کا علم ہوا تو اسنے لبریشن فرنٹ کے اخبار پر کریک ڈاؤن شروع کیا۔ اسے بیچنے والوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا ۔ ٹارچر اور لاپتہ کرنا شروع کر دیا۔ جس سے تنظیم کو اخبارات کی فراہمی میں کچھ عرصہ دشواری کا سامنہ کرنا پڑا۔ تنظیم نے دوبارا چھوٹے بچوں کے زریعے اخبارات کی ترسیل کو گھر گھر فراہمی شروع کردی اس سے فرانسیسی حکومت کو کریک ڈاؤن میں مشکل درپیش آتی رہی اور تنظیم انفارمیشن دیتی رہی۔

اس طرح لبریشن فرنٹ کی قیادت نےاس انفارمیشن اور کمیونیکیشن وار میں قبضہ گیر کا بھرپور مقابلہ کیا۔

فرانز فینن کی اس کتاب میں مزید کچھ معاشرتی رشتوں کا زکر کیا گیا ہے کہ جدو جہد اور تحریک سے قبل ان رشتوں کا رویہ کیسا ہوتا تھا اور جدو جہد کے ساتھ ان رشتوں میں کیا تبدیلی رونما ہوئی۔ اس کتاب میں جو جو رشتے بیان کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں۔

باپ اور بیٹی کا رشتہ :
مسلم اور الجزائری معاشرے میں عورت کو ایک ننگ ، ناموس اور غیرت کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔ عورت گھر کی چار دیواری میں رہتی اور اپنی گھریلو زمہ داریاں پورا کرتی۔ اور کم عمری میں ہی اس کی شادی کردی جاتی۔ جب وہ اپنے شوہر کے گھر جاتی تب بھی اسے یہی گھریلو زمہ داری پوری کرنی پڑتی تھیں جیسے شوہر کی خدمت ، اسکے والدین کی ، بچوں کی وغیرہ۔

جب لبریشن فرنٹ کے قیادت نے عورت کو جدو جہد میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تو وہی عورت جو گھر کی چار دیواری میں رہنے کی عادی تھی اب گوریلہ ٹریننگ حاصل کرنے لگی ، وہ اونچے اونچے پہاڑوں کے درمیان چلتی نظر آتی، زخمیوں کی پٹی کرتی نظر آتی۔
باپ جو پہلے اپنی بیٹیوں پر پابندی لگاتا تھا اب خود ان کو اجازت دیتا نظر آیا۔ مسلم معاشرے میں باپ اپنی بیٹی کو غیر مرد کے ساتھ بات کرتا پسند نہیں کرتا تھا اب بیٹی کو سرمچار مجاہدین کے ساتھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں کہتا تھا کیونکہ اس کو سرمچاروں پر مکمل بھروسہ تھا وہ جانتا تھا کہ اسکی بیٹی اسکے ساتھ اتنی محفوظ نہیں جتنی لبریشن فرنٹ کے مجاہد کے ساتھ ہے۔

انقلاب نے الجزائری معاشرے کو اتنا بدل دیا کہ بیٹی کئ مہینے پہاڑوں میں جنگ میں گزارتی جب مہینوں بعد واپس گھر آتی تو اسکا استقبال کیا جاتا اور گھر والے اس سے جنگی داستانیں سنتے اور پیار اور محبت دیتے جب چھٹی ختم ہوجاتی تب اسے دعاؤں میں رخصت کرتے۔

باپ اور بیٹے کا رشتہ :
مسلم معاشرے میں باپ ایک بہت مقدس رشتہ ہوتا ہے۔ باپ گھر کا بڑا اور فیصلہ کرنے والی شخصیت ہوتا ہے۔ باپ کا اطاعت اور فرمانبرداری لازم کی جاتی ہے ۔ الجزائری معاشرے میں جب باپ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بیٹا انقلابی اور جہادی تنظیموں میں شامل ہے تو باپ اس پر یہ کام چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیتا ہے اور کہتا ہے یہ بہت مشکلات کا راستہ ہے تم مارے جاؤ گے ہمارا نقصان ہوجایگا وہ بیٹے کو کہتا ہے بیٹا فرانسیسی بہت طاقتور فوج ہیں کیونکہ باپ خوف کا شکار ہوتا ہے۔ باپ بیٹے کو شادی کرنے اور بیوی بچے اور خاندان بنانے کا کہتا ہے مگر باپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جس کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے وہ اپنی منزل سوچ چکا ہے۔
اب بیٹے کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں یا تو وہ اپنے باپ کی بات کو مان کر جدو جہد سے دستبردار ہوجاے اور شادی کرکے بیوی بچوں اور خاندان کے لیے زندگی گزار دے۔ دوسرا یہ کہ وہ باپ کی بات کو نہ مان کر باپ سے بغاوت کرے اور گھر کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر خیرآباد کہہ دے۔مگر اب بیٹا تیسرا آپشن استعمال کرتا ہے وہ باپ کو اپنے انقلابی خیالات سے اپنا گرویدہ اور فین بنا لیتا ہے۔ باپ اسکی انقلابی سوچ سے بہت متاثر ہو جاتا ہے جب باپ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس سفر میں اس کا بیٹا اکیلا نہیں بلکہ پوری نوجوان نسل اس منزل کی سپاہی ہے تب وہ بیٹے کو خود نصحیت دے کر رخصت کرتا ہے کہ بیٹا لبریشن فرنٹ کے اصولوں کے مطابق جدو جہد کرنا۔

بعض جگہوں پہ تو یہ بھی دیکھا گیا کہ باپ بیٹا دونوں تنظیم کو جوائن کرتے ہیں اور بیٹا تنظیم کا کمانڈر ہوتا ہے اور باپ ایک سپاہی کے طور پر اسکا حصہ ہوتا ہے۔ انقلابی جدو جہد نے الجزائری معاشرے اور رشتوں کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا۔

بھائی اور بھائی کا رشتہ :
اسلامی اور روایتی معاشرے میں باپ کے بعد بڑا بھائی ہی گھر کا سربراہ ہوتا ہے جس کی اطاعت اور احترام لازمی کیا جاتا ہے۔ انقلابی جدو جہد نے دوسرے رشتوں کی طرح اس رشتہ کو بھی بدل کر رکھ دیا۔ یہاں یہ بھی دیکھا گیا کہ دونوں بھائی تنظیموں کا حصہ رہے۔ چھوٹا بھائی اگر تنظیم میں بطور کمانڈر فرائض سر انجام دے رہا تھا تو بڑا بھائی اس کی کمانڈ ایک عام جہدکار کی حیثیت سے لڑ رہا تھا۔ انقلابی جدو جہد نے بھائی بھائی کے رشتے کو بدل کر رکھ دیا۔

شوہر اور بیوی کا رشتہ :
انقلابی جدو جہد کے دوران جس طرح تمام رشتے تبدیل ہو رہے تھے اسی طرح شوہر اور بیوی کا رشتہ بھی بدل گیا۔ اس کتاب میں فینن ایک مصطفی نامی شخص اور اسکی بیوی کا واقعہ بیان کرتا ہے۔ مصطفی لبریشن فرنٹ کا ایک کمانڈر ہوتا ہے مگر اسکی بیوی کو اس بات کا علم نہیں ہوتا۔ ایک دن مصطفی کو ایک فرانسیسی فوج کے ٹارچر سیل کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں جہاں الجزائری لوگوں قید کیا جاتا تھا ، وہ اس پر حملہ کرنے جاتا اور کامیابی سے حملہ کرکے واپس آجاتاہے۔ اسکی بیوی ریڈیو پر چلنے والی حملے کی خبر سنتی ہے اور اسے بتاتی ہے مگر وہ اس سے بالکل لا علمی ظاہر کرتا ہے۔

ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مصطفی کے ہمسایوں میں سے ایک بندہ فرانسیسی افواج کے ہاتھوں لاپتہ ہوتا ہے۔ اسے ٹارچر سیل میں ڈالا جاتا ہے وہ کسی طرح اپنی بیوی کو ٹارچر سیل کے حالات کے بارے میں بتانے میں کامیاب ہوجاتا ہے اس کی بیوی مصطفی کے گھر آکر ٹارچر سیل کا سارا احوال بتاتی ہے۔ مصطفی کی بیوی یہ سب سن کر اسکو نامردی کا طعنہ مارتی ہے کہ تم یہاں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہو وہ تمہارے بھائی دشمن کی قید میں ٹارچر برداشت کر رہے ہیں۔ مسلم قدامت پسند معاشرے میں ایک عورت اگر مرد کو نامردی کا تعنہ دیتی ہے تو وہ اسکے لئے بہت ناگوار اور نا قابل برداشت ہوتا ہے۔ گویا مصطفی کی بیوی نہیں جانتی تھی اسکا خاوند لبریشن فرنٹ کا ایک کمانڈر ہے۔

انقلابی جدو جہد نے الجزائری معاشرے کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔
اگر کسی جوان نے شادی کرنا ہوتا تو عورت اسے اس صورت میں ہی قبول کرتی تھی اگر وہ لبریشن فرنٹ کا کمانڈر ہو یا اس وہ لبریشن فرنٹ کا حصہ ہو یا ٹریننگ حاصل کی ہو۔ وہ ایسے جوان سے بالکل قبول نہیں کرتیں تھیں جو قومی جدو جہد کا حصہ نہ ہو۔ اس طرح انقلابی جدو جہد ہر رشتے اور ہر گھر میں جا پہنچے۔

فرانسیسی افواج نے جب الجزائری معاشرے کو یوں متحد اور جنگجو ہوتے دیکھا تو اسنے ان کا اتحاد کو ختم کرنا کا سوچا اور طاقت کے بے بہا استعمال کیا۔ پہلے ہی اس کے ٹارچر سیلوں میں ہزاروں لوگ قید تھے پھر اسنے ہر گھر کے مرد اٹھانا اور غائب کرنا شروع کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لاپتہ افراد کی تعداد لاکھوں میں ہو گئی۔ جس سے سب سے بڑا مسیلہ یہ ہوا کہ خواتین اکیلی ہوگئیں وہ معاش اور بچوں کو پالنے کے چکروں میں دربدر ہونے لگیں۔ وہ لاپتہ افراد کے ٹارچر سیلز کے دھکے کھاتی تھیں اپنے اپنے مرد کو تلاش کرتی تھیں جب انکو وہ نہ ملتے یا انہیں بتایا جاتا کہ انکے مرد کو مار ڈالا گیا ہے تو وہ تنظیم جوائن کر لیتی تھیں۔
بہت بار ایسا ہوا فرانسیسی افواج خواتین کو گھروں سے انکے مردوں کے سامنے سے اٹھا کر لے جاتیں انکو اپنے کیمپ میں ریپ کرتیں اور واپس گھر چھوڑ کر جاتی جسکا مقصد الجزائری لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنا اور ان کی اتحاد توڑ کر منتشر کرنا تھا۔

اسکے علاوہ فرانسیسی افواج نے بہت سخت قسم کے فوجی آپریشن کیے ، بمباری کی ، بچوں بوڑھوں ہر کسی کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنایا۔ اسنے باغیوں کی ایک پورا شہر جس کی آبادی 45 ہزار تھی زمین بوس کردیا۔ فرانسیسی افواج نے ظلم و بربریت کی انتہا کردی۔
سامراجی ڈاکٹروں نے بھی ان اقدامات میں فرانس کا ساتھ دیا الجزائری لوگ جب فرانسیسی ڈاکٹروں کے پاس علاج کے لیے جاتے تھے تو وہ ڈاکٹر ان کا علاج نہیں کرتے تھے وہ انکو وحشی بولتے تھے اور کہتے تھے تم جانوروں کے ڈاکٹر کے پاس جاؤ تمہاری علاج وہ کریں گے۔اسکے علاؤہ آپریشن بھی نہیں کرتے تھے جس سے بہت سے مریض اور زخمی شہید ہوئے۔ فرانسیسی افواج نے پورے الجزائر میں ادویات قبضہ میں لے لیں تاکہ الجزائری لوگ علاج نہ کروا سکیں اور ان کے زخمی مرجائیں۔ اسکے علاوہ میڈیکل سٹورز کے پاس اپنے انٹلیجنس اہلکار تعینات کیے جو یہ دیکھتے کہ آیا یہ دوائی کسی جنگی زخمی کی طرف تو نہیں جارہی ہے اگرکسی جنگی زخمی کی طرف دوا جاتی تو پیچھے جاکر پورے خاندان کو پابند سلاسل کرتے یا مار ڈالتے۔ انہوں نے ہر طرح سے الجزائر کی نسل کشی کا طریقہ اختیار کیا۔

لبریشن فرنٹ نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اس نے اس کا کاونٹر کرنے کے لیے بہت سے ڈاکٹروں کو مار گرایا اور سزائیں دیں۔ اور الجزائری حکیم اور ڈاکٹروں کا اتحاد بنایا جو انکی علاج کرتا تھا اور ادویات میں لوکل لیول پر بنانا شروع کیں اور میڈیکل کے شعبے میں بہت کام کیا اور فرانسیسی جارحیت کا مقابلہ کیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں