بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لیے قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4349 دن مکمل ہوگئے، مستونگ سے سیاسی سماجی کارکناں رسول بخش مینگل، محمد اسحاق بلوچ اور دیگر اظہار یکجہتی کیا –
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ اظہار یکجہتی کیلئے آنے والے سے گفگتو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فورسز بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آپریشن کررہی ہے اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق درجنوں معصوم بلوچ پرامن جدوجہد کرنے والے کارکنوں کو شہید کیا گیا ہے اور سینکڑوں لاپتہ کیے گئے ہیں –
انکا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ایک بار پھر ڈیتھ سکواڈ کو سرگرم کرکے بلوچ سیاسی کارکنوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے –
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی میڈیا اور سول سوسائٹی کے بلوچ قوم کے ساتھ جعلی ہمدردیاں اور پاکستان کے لیے بلوچ بلوچستان میں حکمت عملیاں تبدیل کرنے کے مطالبوں کے باوجود اپنے ناکام حربوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور پہلے جاری تشدد میں مذید تیزی لائی گئی ہے –
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جرائم پیشہ کارروائیوں کے ذریعے انتشار پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے –
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی جرائم اب دنیا کے سامنے ایک حد تک بے نقاب ہوچکے ہیں لیکن انسانی حقوق کے اداروں کو بلوچستان میں پاکستانی جنگی جرائم کے خلاف مؤثر آواز اٹھانا چاہیے –
دریں بلوچستان کے ضلع نوشکی سے تعلق رکھنے والی صدف اقبال بلوچ نے کہا ہے کہ انکی کزن نصیب اللہ بادینی کو 25 نومبر 2014 کو سات سال قبل نوشکی قاضی آباد سے جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا جوتاحال لاپتہ ہے –
انہوں نے کہا کہ نصیب اللہ ایک باصلاحیت نوجوان اور بولان ٹیکوانڈو ٹیم کے کھلاڑی تھے –
انہوں نے انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے اپیل کی ہے وہ نصیب اللہ بادینی کی بحفاظت بازیابی کے لیے اپنا کردار ادا کریں –
دریں اثناء بلوچ سوشل میڈیا ایکٹیویسٹس کی جانب سے لاپتہ نصیب اللہ بادینی کی جبری گمشدگی کے خلاف سوشل میڈیا میں ایک کمپین کا انعقاد کیا گیا جس میں بلوچستان سمیت دنیا بھر کے سوشل میڈیا ایکٹیویسٹس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر نصیب اللہ بادینی کی جبری گمشدگی کے خلاف ٹوئٹ کرتے ہوئے انکی بازیابی کا مطالبہ کیا –