آل پارٹیز کیچ کا اہم اجلاس، گہرام نادل کے حراستی قتل کی مذمت، پریس کانفرنس اور احتجاج کا اعلان، سیکیورٹی فورسز کی زیادتیوں کے خلاف تمام وفاقی و صوبائی پارٹی سربراہاں اور میڈیا ہاؤسز کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
آل پارٹیز کیچ کا ایک اہم اجلاس ہفتے کے روز دشتی ہاؤس میں کنوینر نصیر گچکی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت الائنس میں شامل تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
اجلاس میں گزشتہ روز کونشقلات تمپ میں گہرام ولد نادل کو اپنے تین دیگر ساتھیوں کے ہمراہ گرفتار اور بعد میں گہرام نادل کے حراستی شہادت پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی گئی،
اجلاس میں کنوینر نصیر گچکی نے واقعہ اور اس کے پس منظر پر شرکاء کو بریف کرتے ہوئے کہا کہ گہرام اور اس کے تین ساتھیوں کو 12 جون کی رات چار بجے گھر سے ایف سی نے اٹھاکر لاپتہ کیا، 15 جون کو ان کی شہادت سے قبل فورسز کی طرف سے صبح فون کرکے چاروں کو شام تک رہا کرنے کی بات بھی کی گئی لیکن رات دس بجے کے قریب مجھے فون کرکے بلایا گیا اور وہاں گہرام نادل کو دوران تفتیش ہارٹ اٹیک کے سبب شہادت کی اطلاع دے کر لاش وصول کرنے کو کہا گیا جس پر میں نے انکار کیا۔ بعد میں پولیس کے ذریعے لاش ورثاء کے حوالے کیا گیا جبکہ ایف سی نے ہمیں باقی تینوں نوجوانوں کو حوالہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اس پہ تاحال عمل نہیں کیا گیا اور اب تک باقی تینوں نوجوان ایف سی کی تحویل میں ہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ گہرام کے بھائی کے بقول گہرام کی ایک مقامی سورس کے ساتھ زاتی جھگڑا ہوا تھا۔
نصیر گچکی نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ گہرام کے اہل خانہ کو پیسے دینے کی آفر کی گئی جس کو اہل خانہ نے رد کرکے پیسہ وصول کرنے سے انکار کیا۔
آل پارٹیز کے اجلاس میں اس بات پر متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ گہرام نادل کا حراستی قتل آئینی طورپر ایک غلط عمل ہے جس کے خلاف آل پارٹیز کیچ خاموش رہنے کے بجائے سخت احتجاج کرے گی۔ اس سلسلے میں اتوار 20 جون کو تربت پریس کلب میں ایک اہم پریس کانفرنس کرکے واقعہ کی مذمت اور اس حوالے سے ہونے والے پیش رفت سے عوام کو آگاہ کیا جائے گا جبکہ اس کے علاوہ احتجاجی ریلی اور مظاہروں کا اعلان بھی کیا جائے گا، اجلاس میں 21 جون کو آل پارٹیز کی طرف سے گہرام نادل کے اہل خانہ سے تعزیت کے لیے وفد کے تمپ جانے کا فیصلہ کیا گیا۔جبکہ سانحہ تمپ سمیت بلوچستان میں فورسز کی جارحیت کے خلاف تمام وفاقی اور صوبائی جماعتوں کے سربراہان اور میڈیا ہاؤسز کو خط لکھنے کا فیصلہ بھی کیا گیا اس کے علاوہ سوشل میڈیا میں ٹویٹر پر مہم چلانے کے ساتھ سوشل میڈیا کے دیگر ٹولز کو استعمال کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔