بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں پروفیسر عزیز بگٹی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ عہد حاضر میں بطور ادیب اور تاریخ دان پروفیسر عزیز بگٹی کے خدمات قابل ستائش ہیں۔ پروفیسر عزیز بگٹی کے قابل قدر خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کےلیے جون کے مہینے میں کوئٹہ میں سیمینار کا انعقاد کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کسی بھی قوم اور سماج میں ادیب اور مورخین کا ایک اہم کردار ہوتا ہے جو سماج میں پائے جانے والے تمام نقاص کا ادراک اور حل کےلیے راہیں متعین کرتی ہیں۔ قوموں کی تاریخ میں مورخین کلیدی کردار کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ آج کے مورخوں کی قلم اور روشنائی ایک ایسی ذمہ داری کا حامل ہوتی ہے جو مستقبل کے نسلوں کو ماضی سے آشنا کرکے قومی ترقی کےلیے نئے راہوں کا متلاشی بنا دیتا ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جن اقوام نے خود کے قلم سے اپنی تاریخ کو حتمی شکل نہیں دی تو ایسے اقوام کی تاریخ دیگر افراد کے رحم و کرم پر ہوئی جنہوں نے اقوام کی تاریخ کو مسخ کر کے ایک ایسی شکل دی ہے کہ آج تک وہی اقوام شناختی بحران کا شکار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ترقی پذیر دنیا میں ادیب کو سماج کے معالج کے طور پر گردانا جاتا ہے جو سماج میں پائے جانے والے رجعتی رجحانات کی تشخیص اور سماج کےلیے نئی اور ترقی پسند راہیں متعین کرتا ہے۔ بلوچ قوم آج تاریخ کے ایسے مقام پر کھڑی ہے جہاں ادیب اور مورخوں کی ذمہ داریاں آئے روز بڑھتی جارہی ہیں وہیں پروفیسر عزیر بگٹی اور دیگر دانشوران نے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے انہیں پورا کرنے کی مکمل کوشش کی ہے۔ پروفیسر عزیز بگٹی نے خود کے خیالات اور قومی تاریخ کو لفظوں میں پرو کر نئی نسل کےلیے محفوظ کیے اور آج بھی نوجوان نسل اُن کے خیالات سے مستفید ہو رہے ہیں۔
اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ پروفیسر عزیزبگٹی نے زمانہ طالبعلمی میں سیاست سے لیکر ادب تک خود کے تمام قومی ذمہ داریوں کو تسلسل کے ساتھ انجام دیا ہے۔ بلوچ قوم کےلیے اُن کی ادبی جدوجہد قابل ستائش اور قابل قدر ہے۔ اُن کے ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کےلیے تنظیم کی جانب سے اگلے ماہ جون میں کوئٹہ میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا جائے گا۔