تلخ حُجت
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
یہ قانون فطرت ہے کہ جس سوچ کی کوکھ سے کوئی مسئلہ جنم لے، اس مسئلے کا حل کبھی بھی اُسی سوچ کے اندر پنہاں نہیں ہوتا، حل کیلئے سوچنے کا طریقہ و زاویہ نظر یکسر تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ اگر بلوچ تحریک کے تمام مسائل کے جڑ کو پہچاننے کی کوشش کی جائے تو وہ یہی ہے۔ ہم سانپ پکڑنے ایک ہی سوراخ میں بار بار ہاتھ ڈال کر اتنی بار ڈسواچکے ہیں گر سانپ میں ذرہ بھر تہذیب ہو تو اسے بھی ہم پر تَرس آتا ہوگا۔
بلوچ قومی تحریک آزادی ہر حوالے سے ایک مکمل تحریک ہے، یہاں قربانی کے ایسے قصے رقم ہوئے ہیں جنکی تمثیل فسانوں میں نہیں ملتی، یہاں والد اپنے جوانسال بیٹے کو بارود سے بھری گاڑیوں میں بٹھا کر وطن مادر پر قربان کرنے سے نہیں ہچکچائے، یہاں زیرک نوجوان پھٹے پرانے کپڑوں اور معمولی ہتھیاروں کے ساتھ جس طرح انتہائی طاقتور دشمن کے مورچوں میں گھس کر انہیں گھسیٹ گھسیٹ کر مارتے ہیں، وہ ہر طور اسپارٹا کے لیوناڈس کے بہادری کے ہم پلہ ہے۔ بلوچ خواتین نے جسطرح خاص طور پر گذشتہ پندرہ سالوں سے انتہائی نامصائب حالات میں جابر ریاست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں کو بلوچستان کے طول و عرض میں جمود کا شکارنہیں ہونے نہیں دیا، میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں اسکی مثال کسی تحریک میں نہیں ملتی۔ یقینا کردوں، الجزائری یا کولمبیئن گوریلا جنگجو خواتین کی مثالیں لائی جاسکتی ہیں، لیکن انکی مثالیں لاتے وقت اس امر کو خاطر میں نہیں لایا جاتا کہ وہاں خواتین مکمل طور پر مرد حضرات کے زیر سایہ تحفظ میں محاذوں پر ہوتے ہیں، بلوچ خواتین مکمل طور پر اپنی مدد آپ، ایک انتہائی غیر مہذب دشمن کیخلاف سیاسی طور پر ایک ایسے قبائلی معاشرے میں متحرک ہیں، جہاں اسکا کماحقہ کردار صدیوں سے مفلوج رکھا گیا ہے۔ اگر طالب علموں کی بات کی جائے تو میرے خیال میں یہ کہنا ہرگز مبالغہ نا ہوگا کہ بلوچ طالب علم اگر پوری دنیا کے نہیں تو اس خطے کے ضرور سب سے زیادہ سیاسی طور پر باشعور و متحرک طالب علم ہیں۔ آج بلوچستان کی عسکری و سیاسی قیادت کی واضح اکثریت طلبا سیاست کے صفوں سے نکل کر ہی آئی ہے۔ مزدور، کسان یا ہاری کی بات کی جائے تو اس تحریک میں اتنی لغایت ہے کہ ایک محاذ پر پہنچتے ہی یہاں بالاچ جیسے میروسردار یا مزدو و کسان یا پھر مڈل کلاس کا فرق ختم ہوجاتا ہے۔ پھر آخر کمی کہاں رہ رہی ہے؟
کمی ہمارے سوچ اور زاویہ نظر میں ہے، ہماری تحریک، ہماری قربانیاں، ہماری جدوجہد، ہماری بہادری اور ہماری محنت انتہائی غیر معمولی اور غیرروایتی ہیں لیکن ہم سب، ایک جہد کار سے لیکر قیادت تک ویسا ہی سوچتے ہیں، جیسا کہ ایک عام غیرسیاسی بلوچ سوچتا ہے، ہم مسائل کو ایسے ہی دیکھتے، پرکھتے اور سمجھتے ہیں جیسے کوئی عام شخص دیکھتا ہے۔ جب بات حکمت عملی ترتیب دینے کی ہو، جب بات مسائل حل کرنے کی ہو، ہماری سوچ اور ایک عام بلوچ کی سوچ میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اسی لیئے غیر معمولی جدوجہد، غیر معمولی قربانیوں، غیرمعمولی بہادری کا نتیجہ معمولی نکلتا نظر آتا ہے۔
ایک بار پھر دہراوں گا کہ جس سوچ نے مسائل جنم دیئے، اسی سوچ کے تحت مسائل حل نہیں کیئے جاسکتے۔ ہم نے ایک پورا وطن سلسلہ وار اسلیئے نہیں کھویا کہ ہمارے پاس قیادت نہیں تھا بلکہ میرو سردار اور خانوں کی صورت میں بہتات تھی، لڑاکو بیشمار تھے، لیکن کوئی ایسا نہیں تھا کہ اسکی سوچ عام لوگوں سے اتنی مختلف ہو کہ وہ بیرونی حالات کے رحم و کرم پر رہنے کے بجائے کوئی ڈھیلی ڈھالی حکمت عملی تک رکھے، حالات کو سمجھے، روایتی سوچ سے باہر نکلے، حالات پر اثر انداز ہو۔ آج بھی تحریک کے تمام جہتوں میں ترقی ضرور نظر آتی ہے لیکن بلوچ کے دانشور ہوں، قیادت ہو، جہدکار ہوں یا ایک عام بلوچ تمام کے حالات کے ادراک اور جانچ کا نقطہ نظر ایک ہی ہے۔ آپکو سیاسی سرکلوں، ہوٹلوں، کوفی شاپس، ہاسٹلوں، ڈرائنگ روموں، فٹ پاتھوں اور سوشل میڈیا پر تبصروں و تجزیوں کا بھرمار ملے گا لیکن تمام حقائق سے کوسوں دور سطحی پن پر مشتمل ہیں، تمام علم و جانچ و حالات کے ادراک کے بجائے سنی سنائی باتوں کی کچھڑی پر اپنی رائے کا تڑکا ہیں۔
روایتی سوچ کا مطلب قبائلی سوچ نہیں بلکہ روایتی سوچ کا مطلب یہ ہے کہ ایک سوچ و ایک طریقہ جب ایک بار کارآمد ہو تو پھر بار بار بدلتے حالات و واقعات کو نظر انداز کرتے ہوئے اسی کو دہراتے رہنے اور پہلے والے نتیجے کی امید رکھنا۔ رابرٹ گرین اپنے شہرہ آفاق کتاب “جنگ کی تینتیس حکمت عملیاں” میں کہتا ہے کہ “جنگ ایک بہت بے رحم حقیقت ہے، اس میں کوئی بھی چیز زیادہ عرصے غیرروایتی نہیں رہتی، آپکو ہر وقت کوئی نا کوئی نیا طریقہ یا حکمت عملی، سوچ نکالنا ہوتا ہے یا پھر مرنے کیلئے تیار رہنا پڑتا ہے۔”
اس بات کا اندازہ اس بات سے لگالیں زمانہ طالب علمی سے لیکر آج تک کم از کم مجھے ہر مہینے ایک آرٹیکل پڑھنے یا ایک تقریر سننے کو ملتا ہے جس کا مطمع نظر یہ ہوتا ہے کہ ” خطے کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، اور یہ بدلتے حالات بلوچ کے حق میں ہوسکتے ہیں، بلوچ قیادت کو سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرکے ان حالات کو اپنے حق میں پلٹنا چاہیئے تاکہ بلوچستان آزاد ہوجائے۔ ان بیس سالوں میں نا کسی دانشور نا کسی لیڈر نا کسی جہدکار نے نا وہ ٹوٹکا لکھا جسکے استعمال سے حالات بلوچ کے حق میں بدلے جائیں اور ناہی اس گِدڑ سنگی کا پتہ بتایا جسے حالات کو دِکھا کر بلوچ کے عشق میں مبتلا کیا جاتا، بہرحال تمام کے تمام تحریروں اور تمام کے تمام تقریروں کے آخر میں ایک نسخہ آزمودہ ضرور دیا جاتا ہے کہ بلوچ قیادت اتحاد کرے۔ تحریر و تقریر کا یہ فارمولہ اتنا استعمال ہوچکا ہے کہ اب کسی مضمون کے ٹائٹل پر “عالمی حالات کا تجزیہ” پڑھنے کو نظر آجائے تو یقین مانیں اکتاہٹ سے ابکائیاں آنے لگتی ہیں۔ اس سے بڑی روایت پسندی کی مثال شاید نا ہو۔
لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری دو دہائیوں کی اجتماعی دانش کے تجزیوں میں جو حکمت عملی ملتا ہے، تھوڑا سا اسکا بھی جائزہ لیا جائے۔ یعنی جو سب سے بڑے حکمت عملی تک ہماری اجتماعی دانش پہنچ پائی ہے وہ ہے اتحاد۔ اتحاد بالکل ایک اچھی چیز ہے اور اس میں کوئی مذائقہ نہیں لیکن کیا یہ واقعی حل بھی ہے؟ دو باتیں ہمیشہ یاد رکھیں، جب حکمت عملیوں کی بات ہو اور سب سے زیادہ زور اتحاد پر دی جائے تو اسکا مطلب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ نا صرف آپکے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے اور آپ امید کررہے ہو کہ سب مجتمع ہونگے اور کسی اور کے منہ سے شاید کوئی کارآمد بات نکل آئے گی بلکہ اسکا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کمزور ہوچکے ہو اور مسئلے کے حل کیلئے آپکا پدرشاہی نفسیات جمع ہوکر زور سے مرو یا مارو والے جبلت کی طرف آپکو راغب کررہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر کسی بھی تنظیم میں جب میٹنگوں و دیوانوں کی ضرورت سے زیادہ بہتات ہونے لگے تو سمجھ جائیں کہ وہ تنظیم منتشر ہوچکی ہے اور مزید ادارہ جاتی حیثیت میں کام کرنے سے قاصر ہے۔
ہم اب ایک ایسے دہرائے پر نظر آتے ہیں، ہر بدلتا دن ہم سے نئی حکمت عملیوں کا تقاضہ رکھتا ہے لیکن ہم ان حالات کو ایک عام بلوچ کی حد نظر سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں کیونکہ ہم نے یہ حد رکھی ہوئی ہے، اسلیئے جب کہیں کوئی چھوٹی بڑی حکمت عملی مرتب ہو اور نافذالعمل کی جانے کی کوشش کی جائے تو اسے گھسیٹ کر گرانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ ایک عام شخص کے زاویہ نظر یا سمجھ کے پرتوں پر پورا نہیں اتر رہا ہوتا۔ ہماری یہی کم آئیگیاں بارہا دشمن کو مواقع مہیا کرتے رہے ہیں۔ سن زو کہتا ہے کہ ” دشمن کو آپ شکست نہیں دیتے، بلکہ وہ خود کو شکست دینے کا موقع ہمیشہ خود مہیا کرتا ہے” سوچنا چاہیئے کہ ہم دشمن کو کیا مواقع مہیا کررہے ہیں؟
رواں سال افغانستان سے امریکی فوج کی ستمبر میں مکمل انخلا کی خبروں پر ایک جانب تجزیوں و پیشن گوئیوں کا بازار گرم ہے، دوسری جانب اچھے خاصے بلوچ جہدکار و لیڈر سَرپکڑے نظر آتے ہیں اور کئی تو نوے کی دہائی والی مماثلتیں تلاشتے ہیں۔ یہ خود اس امر کا کھلا اظہار ہے کہ ہم بیرونی حالات سے کتنے اثر انداز ہوتے ہیں اور ہم میں حکمت عملی و غیر روایتی سوچ کا کتنا بحران ہے۔ جب یہ تجزیئے و تبصرے کیئے جاتے ہیں تو اس امر کو مکمل نظرانداز کیا جاتا ہے کہ رواں بلوچ تحریک کا آغاز افغانستان پر امریکی حملے سے قبل ہی ہوچکا تھا اور اس عزم کے ساتھ ہوا تھا کہ ماضی کی غلطیاں دہرائی نہیں جائیں گی، جب طالبان نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرلیا، تو ہمیں جنگ روک دینی پڑی بلکہ اس بار بیرونی حالات سے متاثر ہوئے بغیر تحریک کو بلارخنہ جاری رکھنا ہے اور بیرونی حالات پر اثرانداز ہونا ہے۔ لیکن بادی النظر اب بلوچ تحریک میں جہدکار سے لیکر قیادت تک افغانستان کے حالات کو بالکل اسی نظر سے دیکھ رہا ہے جس طرح کسی چوراہے پر بیٹھا ایک عام شخص تجزیہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔
جب آپ شطرنج کا کھیل سیکھنا شروع کرتے ہیں، تو بڑے سے بڑا مائسٹرو بھی آپ کو پہلے ایک قانون اچھے طریقے سے سیکھنے کو کہتا ہے کہ ایک بری حکمت عملی، بغیر حکمت عملی سے کھیلنے سے لاکھ گنا بہتر ہے، ہمیشہ کسی نا کسی حکمت عملی سے کھیلو چاہے وہ حکمت عملی کتنا ہی برا کیوں نا ہو۔ اسکی وجہ کیا ہوتی ہے؟ جب آپ کسی چیز کیلئے لڑرہے ہوتے ہو یا جدوجہد کررہے ہوتے ہو تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے آپ جانتے ہو آپکا حتمی مقصد کیا ہے، اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے جب آپ کوئی حکمت عملی ترتیب دیتے ہو، چاہے وہ غلط بھی ہو، پھر آپکے قسمت کا فیصلہ آپکے ہاتھوں میں ہوتا ہے، آپ اس حکمت عملی کے تحت آگے بڑھتے ہیں، دیکھتے ہیں آپکا حکمت عملی کام نہیں کررہا، آپ اس میں روبدل لاتے ہو، پھر آگے بڑھتے ہو، آپکے پاس ایک حکمت عملی ہوتا ہے، اسی لیئے آپکو ہر گذرتے پَل کا ادراک ہوتا ہے، حکمت عملی کی وجہ سے آپکو خود پر اور مخالف پر نظر رکھنی پڑتی ہے اور اسی لیئے آپ تبدیلیاں بھی لاسکتے ہو۔ شاید آپ چند لڑائیاں ہار لو لیکن آپکے جنگ جیتنے کے امکانات روشن رہتے ہیں لیکن اگر آپکے پاس کوئی بھی حکمت عملی نہیں پھر جنگ میں آپ دشمن کے اور شطرنج میں آپ مخالف کے کھیل کے رحم و کرم پر رہتے ہو۔ جیسی چال وہ چلتے ہیں، آپ ردعمل میں اسی طرح حرکت کرتے رہتے ہو، اسی لیئے آپ سے زیادہ آپکے دشمن یا مخالف کو زیادہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپکا اگلا قدم کیا ہوگا۔ سن زو کہتا ہے کہ ” فاتح جنگجو پہلے جیتتے ہیں پھر میدان جنگ میں اترتے ہیں اور مفتوح جنگجو پہلے میدان جنگ میں اترتے ہیں اور پھر جیتنے کی کوشش کرتے ہیں۔”
یہ حکمت عملی درحقیقت کیا ہوتی ہے اور اسکی اتنی ضرورت کیوں ہے؟ چلیں اس بارے میں روبرٹ گرین سے تھوڑی رہنمائی لیتے ہیں جو اپنی کتاب “جنگ کے تینتیس حکمت عملیوں” میں اس بارے میں رقمطراز ہیں کہ ” عظیم حکمت عملی اصل میں ذہن اور سوچ کے وسعت کا نام ہے، وقت اور مقام کے لحاظ سے اتنی دور تک دیکھنا، جہاں تک آپکا دشمن نا دیکھ سکے۔ دور اندیشی در اصل ایک غری فطری و ایک غیر روایتی عمل ہے کیونکہ فطری طور پر ایک عام انسان صرف موجودہ لمحے تک ہی سوچ سکتا ہے۔ ایک ماہر کے طور پر آپکی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے ذہن اور سوچ کو وسیع رکھیں اور اپنے اردگرد کی دنیا کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے کی کوشش کریں۔ صرف یہ نا سوچیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں بلکہ حقیقت کو قبول کرنے کی کوشش کریں۔ آپ اس سمت میں ایک اہم قدم اس طرح اٹھاسکتے ہیں کہ دشمن کی نظر سے دنیا کو دیکھنے کی کوشش کریں۔”
ہمیشہ یاد رکھیں آپکے اور دشمن کے درمیان دو طرح کی جنگیں ہورہی ہوتی ہیں، ایک جسمانی جنگ، جس میں بندوقیں و توپیں وغیرہ استعمال ہوتی ہیں، قتل و غارت ہوتی ہے اور دوسری نفسیاتی جنگ اور یہ نفسیاتی جنگ حکمت عملیوں سے ہی لڑی جاتی ہے۔ اگر آپکے پاس کوئی واضح اور اچھی حکمت عملی نہیں تو آپ آدھی جنگ شروع کرنے سے پہلے ہی ہار چکے ہو۔ اس بارے میں رابرٹ گرین کہتے ہیں “یاد رکھیں نفسیاتی جنگ اتنی ہی اہم ہے، جتنی کہ جسمانی جنگ، فرق محض یہ ہے کہ نفسیاتی جنگ میں قتل عام نہیں ہوتا لیکن اثر اتنا ہی ہوتا ہے۔ اپنے دشمن کو کمزور کرنے کے عمل کو ایسے سمجھیں، جیسے کسان اپنا فصل پکاتا ہے۔ وہ بیج بوتا ہے، پانی دیتا ہے، مہینوں انتظار کرتا ہے اور درست وقت کا انتظار کرتا ہے کہ کب اسے کاٹنا ہے۔ نفسیاتی چالوں کا دارومدار حکمت عملی پر ہوتا ہے۔ اسلیئے آپکی حکمت عملیاں ہر لحاظ سے مکمل ہونی چاہئیں۔ اگر آپکی حکمت عملیاں بہت سخت ہیں تو آپ بدلتے حالات کے ساتھ بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھیں گے اور ٹوٹ جائیں گے اور اگر آپ بہت زیادہ لچکدار حکمت عملیاں اپنائیں گے تو غیر متوقع حالات کا سلسلہ جاری رہے گا اور وہ آپ پر غالب آجائیں گی۔ اپنے دشمن کی صرف فوج اور جذبات ہی گھیرے میں لینے کی کوشش مت کریں بلکہ انکی حکمت عملیاں بنانے کی سوچ، صلاحیت و قابلیت کو بھی گھیرلیں۔ اس آخری محاصرے کیلئے آپکو دشمن کے بارے میں تمام معلومات حاصل کرنی ہوںگی۔ اور پھر اسے ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی ایسی انوکھی حکمت عملی اپنانی ہوگی جس کا پہلے سے دشمن کو کبھی تجربہ نا ہوا ہو۔ حکمت عملی کا یہ نیا پن صرف ایک لڑائی نہیں بلکہ پورے جنگ میں فتح دلواسکتا ہے۔”
آج آپکو کئی بے تُکے تبصرے و تجزیئے ایسے ملیں گے جو بلوچ تحریک کے ختم ہونے کی نوید سنائیں گے، یا پھر اسے کم درجے کی معمولی انسرجنسی قراردینے کے درپے ہونگے۔ میں اس پر بحث کرنے کیلئے تیار ہوں کہ بلوچ قومی تحریک آزادی ایک انتہائی مضبوط اور شدید تحریک ہے، جو بلوچ سماج کے تمام طبقہ ہائے افکار میں انتہائی مضبوط جڑیں رکھتا ہے، جو خودرو ہے، جو دو دہائیوں سے زائد عرصے سے بغیر رکے شدید کاونٹر انسرجنسی کا مقابلہ کرتے ہوئے نا صرف آج بھی مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے بلکہ اپنے آغاز کے تقابل میں اس میں کئی گنا شدت آچکی ہے اور آنے والے کئی سالوں تک اس تحریک کے رکنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس تحریک کو دشمن ختم نہیں کرسکتی، پوری قوت کا استعمال کرنے کے باوجود صرف وقفے وقفے تک منتشر رکھ سکتی ہے لیکن اس تحریک کو کامیاب کرنے کیلئے ایک تبدیلی ضروری ہے، وہ سوچ کی تبدیلی ہے۔ ایک جہدکار سے لیکر قیادت تک تمام کی سوچ کی تبدیلی۔ انفرادی سطح سے اجتماعی سطح تک سوچ کی تبدیلی۔ جیسے ایک جہدکار ایک غیرمعمولی انسان ہوتا ہے، اسی طرح اسکے سوچ کو بھی غیرمعمولی ہونا پڑے گا، تب ہمیں اجتماعی سطح پر غیرمعمولی نتائج بھی ملنا شروع کریں گے اور یاد رکھیں نئے نقشے غیر معمولی سوچ کھینچتے ہیں، تاریخ غیرمعمولی سوچ بناتے ہیں اور جیتنے کا حق محض غیر معمولی سوچ رکھنے والے ہی محفوظ رکھتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں