بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی کمیٹی کا چوتھا اجلاس چیئرمین خلیل بلوچ کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں کابینہ اور مرکزی کمیٹی کے تمام ممبران نے شرکت کی۔ اجلاس میں مختلف ایجنڈا زیر بحث آئے اور فیصلے کیے گئے۔ مرکزی کونسل سیشن بنام شہید ڈاکٹرمنان بلوچ اور بیادِ شہدائے بلوچستان منعقد ہوگا، کونسل سیشن کے انعقاد کے لیے تاریخ اورمقام کا تعین کرنے کے علاوہ مختلف کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔
مرکزی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا اس سفر میں ہم نے اپنے انتہائی لائق اورسینئر ساتھی قربان کیے ہیں، قومی تحریک یا سماج کے دیگر پارٹی یا تنظیموں سے ہمیں جو چیز منفرد بناتا ہے وہ ادارے پر اعتماد، ادارتی سیاست، ٹیم ورک اور مستقل مزاجی اور انقلابی تقاضوں سے ہم آہنگی ہے اور ادارتی سیاست کے تصور اور اس پر عملدرآمد نے پارٹی کو سینئر رہنماؤں، کیڈرز اور کارکنوں کی شہادت جیسے نقصانات کے باوجود قائم رکھا۔ مختصر وقت میں ہم نے بے شمار ساتھی قربانی کیے ہیں، قربانی، ادارتی سیاست، ٹیم ورک اور مستقل مزاجی سے کام کی بدولت عوام کا ہمیں اعتماد حاصل ہے۔ آج ہم سیشن کی طرف جارہے ہیں تو ہمیں خامی اور کمزوریوں کا جائزہ لے کر آگے بڑھنا چاہیے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا بلوچستان اور بلوچ سرزمین سے باہر بلوچ قوم کا بلوچ نیشنل موومنٹ پر ایک اعتماد قائم ہوچکا ہے۔بلوچستان میں دشمن نے بلوچ کے لیے جینا مشکل کردیا ہے روز ہمارے بچے، بھائی اور بزرگ قتل کیے جارہے ہیں لیکن اس بربریت کے باوجود آزادی کے سلوگن پر بلوچ کٹھن حالات میں ہر قدم پر ہمارے ساتھ ہے۔ ہم ایسے سفر میں ہیں کہ بلوچستان اوربلوچستان سے باہر کسی بھی وقت نشانہ بن سکتے ہیں لیکن اس سفر میں ادارے سے جڑے لوگوں کے اعصاب، حوصلہ اوراعتماد میں کمی نہیں آنی چاہیے تاکہ اندرونی یا بیرونی مداخلت یا ایسی خواہش ہماری اعصاب کو شکست نہ دے سکے جب ہم میں قوت برداشت اور حوصلہ کی کمی نکل نہ آئے تو ہم لوگوں سے کیونکر امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہم پر اعتماد کریں یا قربانی دیں۔
انھوں نے کہا قومی آزادی اور بقاء کے لیے پارٹی کے لیے انقلابی ڈسپلن ہماری اولین ترجیح ہے، تحریک کی کامیابی کے لیے ہمارے دروازے سبھی کے لیے کھلے ہیں اور مختلف تنظیموں سے رابطے اور اشتراک کا عمل جاری ہے لیکن ہمارے فیصلے ایک بااختیار ادارے کی حیثیت سے قومی مفاد اور وقت کے تقاضوں کے لیے انقلابی پیمانے پر ہوتے ہیں، کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ بی این ایم اپنے ترجیحات میں کمپرومائز کا شکار ہوگا لہٰذا ہمارے ساتھیوں کو سختی کے ساتھ انقلابی ڈسپلن پر کاربند رہ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم تحریک کی ضروریات اور تقاضوں پر پورا اترسکیں۔
مرکزی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا بلوچ نیشنل موومنٹ ایک ماس انقلابی پارٹی ہے، ایک ماس انقلابی پارٹی کے ممبر کی حیثیت سے ہمہ قسم کی جانی و مالی قربانی کا حلف اٹھایا ہے اور واقعتا بلوچ نیشنل موومنٹ کے قیادت سے لے کر کیڈر اور ممبران نے قربانی دی ہے۔ اس عمل میں ہم سے کوئی بھی دشمن نشانہ بن سکتا ہے، اس لیے کہتے ہیں کہ آزادی کے جدوجہد کو لیڈر نہیں ہوتا ہے، لیڈر اس لیے نہیں ہوتا ہے کہ کیونکہ وہ مسلسل قتل ہورہے ہیں لیکن ہم جو زندہ ہیں ہمیں احساس کرنا چاہئے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ انقلابی پارٹی کے مرکزی کمیٹی محض گنتی کے چند افراد نہیں بلکہ انقلابی عمل اورسماج کی رہنمائی کے لیے پالیسی ساز ہیں یہ ان پر منحصر ہے کہ یہ انقلابی عمل اور سماج کو کس جانب یا کسی نہج پر لے جانا چاہتے ہیں۔ ہماری پالیسیاں کسی کے بھی سطحی خواہش کے نتیجے میں نہیں بلکہ قومی مفاد اور قومی مقصد کے حصول کے لیے حکمت عملی کے طور پر بنتے ہیں۔
ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا کہ ایک انقلابی پارٹی کا مرکزی کمیٹی انتہائی اہمیت کے حامل ہے، مرکزی کمیٹی ممبران کو عوام میں اس طرح رہ کر کام کرنا اور رہنمائی کرنا چاہیے کہ دشمن ان کا کھوج نہ لگا سکے۔ عوام میں رہ کر ایک انقلابی کو مقناطیس کی طرح لوگوں کو اپنی طرف کھینچنا چاہیے نہ کہ پانی کی طرح انھیں دھکیل دے۔
انھوں نے کہا کسی بھی جدوجہد میں انسانی غلطیوں سے انکار ممکن نہیں، سابقہ اور موجودہ سپر پاورز کی قیادت سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، ویت نام، چین اور کیوبا کے انقلابی قیادت سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ ان کے جدوجہد کامیاب ہوئے لہٰذا ان کی ناکامیوں پر کامیابیاں حاوی ہوئے لیکن خدانخواستہ ہم ناکام ہوئے تو ہمارا ادارہ بری الذمہ نہیں ہوگا ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں اور آئندہ بھی ممکن ہیں۔ عظیم قومی مفاد کے لیے ہمارا جن لوگوں پر اندھا اعتماد تھا اس اعتماد سے بلوچ قوم اور پارٹی نے نقصان اٹھایا اس باب میں غلام محمد کی شہادت سرفہرست ہے، ایک زیر زمین مسلح تنظیم اقوام متحدہ کے نمائندے کو اغواء کرتا ہے تو کس سیاسی اخلاقیات کے تحت جمہوری و سرفیس سیاست کے لیڈر کو نمائندہ بنایا جاتا ہے، اس سے دشمن اور دنیا کیا تاثر لیتا ہے، اس میں ہم بری الذمہ نہیں لیکن ہمارا جن لوگوں پر اندھا اعتماد تھا سب سے بڑی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ دشمن غلام محمد یا ہمارے دوسرے رہنماؤں کو نقصان نہیں دے گا لیکن یہ عمل براہ راست غلام محمد کی شہادت کا ایک ا ہم محرک بن گیا۔
ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا ڈاکٹر منان بلوچ ہمارے ایسے رہنماء تھے جن کا خلاء مشکل ہی سے پر ہوتے ہیں، وہ ایسے وقت میں شہید ہوئے کہ دشمن کی دہشت گردی عروج پر تھا لیکن یہ ان کی انقلابی صفت تھی کہ وہ قومی مفاد، پارٹی اور تنظیموں کے درمیان اختلافات اور غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے انتہائی پرخطر حالات میں سفر پر نکلے اور ہم ڈاکٹر منان جان اور ساتھیوں کی شہادت کی صورت میں ایک ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہوئے، آج ہم حالات کے تقاضوں کے مطابق انقلابی حکمت عملی کے تحت کام کررہے ہیں، یہ کسی حلقے یا چند ایک عناصر کی خواہش ہوسکتا ہے کہ آج پھر اسی حکمت عملی پر گامزن ہوں لیکن اب ہم اس کا متحمل نہیں ہوسکتے ہیں چیئرمین سے لے کر ممبرشپ تک ایک جامع حکمت عملی کے تحت ہم نے مضبوط چین قائم کیا ہے۔ لہٰذا میری گزارش ہے کہ ہمیں روایتی طرزِ فکر سے زیادہ انقلابی اخلاقیات کو زیادہ ترجیح دینا چاہیے اور آزادی کے جدوجہد میں ہمیں میکانکی اندازِفکر اور اصطلاحات کے موشگافیوں میں الجھنا نہیں چاہیے بلکہ جدوجہد کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے سماج اور انقلابی تقاضوں سے ہم آہنگ فیصلہ کرنا چاہیے۔
اجلاس میں مختلف فیصلے کے گئے، پارٹی کے وائس چیئرمین غلام نبی بلوچ کی بنیادی رکنیت ختم کی گئی، ان کی خالی نشت پر مرکزی کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر خدا بخش کو وائس چیئرمین منتخب کیا گیا اور مرکزی کمیٹی کے خالی نشست پر بی ایس او آزاد کے سابقہ وائس چیئرمین کمال بلوچ کو منتخب کیا گیا، کوریا زون کے ممبر عابد بلوچ کی بنیادی رکنیت بحال کی گئی، زروان ھنکین کے سابق ڈپٹی آرگنائزر حاصل بلوچ کو ڈسپلن کی خلاف ورزی پر 2 ماہ کے لیے معطل کیا گیا۔