بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ ہفتے کراچی یونیورسٹی کے طالبعلم یاسر ظفر کو بلیدہ میں بہیمانہ طور پر قتل کیا گیا جو کہ گذشتہ دو دہائیوں سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ایک سازش کے تحت جبر کا نشانے بنانے کے ایک ہی تسلسل کی کڑی ہے۔
بلوچ طالب علموں کو تسلسل کے ساتھ قتل کرنے اور اُن کا جبر کا شکار بنانے جیسا یہ عمل اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ سال قبل حیات بلوچ کو بیچ چوراہے پر اُن کے والدین کے سامنے گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا اور اس کے علاوہ رواں سال جعلی پولیس مقابلے میں چار بلوچ طالب علموں کو کوئٹہ میں قتل کر دیا گیا، طالب علموں پر جبر کے اِس تسلسل میں جہاں ایک جانب سکیورٹی ادارے براہ راست ملوث ہیں تو دوسری جانب گذشتہ چند ادوار میں سکیورٹی اداروں کی پشت پناہی میں کام کرنے والے مسلح گروہوں نے طالب علموں کےلیے دہشت کی ایک ماحول بنا رکھی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یاسر ظفر کے قتل کو ایک ہفتہ کا دورانیہ پورا ہونے کے باوجود تاحال قاتلوں کو گرفتار کر کے انھیں قانون کے کٹہرے میں نہ لانا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ حکومت سمیت تمام مقتدر قوتوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ طالب علم کے بہیمانہ قتل میں ملوث کرداروں کے خلاف شفاف تفتیش کا آغاز کرتے ہوئے قاتلوں کی گرفتاری کےلیے عملی اقدامات کی جائیں اگر یاسر ظفر کے قتل میں ملوث کرداروں کے خلاف غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عملی اقدامات نہیں کی گئی تو بلوچ یکجہتی کمیٹی وسیع پیمانے پر احتجاج کا آئینی حق محفوظ رکھتی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی یاسر ظفر کے قتل جیسے گھناؤنے عمل کے خلاف کل بروز اتوار سوشل میڈیا میں آگاہی مہم کا انعقاد کرے گی۔