بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4324 دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماء نصیر احمد شاہوانی، میر عبدالغفار قمبرانی، نیاز محمد لانگو نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کے بیٹیوں سمی دین بلوچ اور مہلب دین بلوچ نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ خاموش کیوں ہے کہ بلوچستان میں بلوچ طلباء، نوجوانوں، سیاسی کارکنوں، حقیقت پسند صحافیوں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد فورسز، خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار ہییں۔ اقوام متحدہ سمیت حق و انصاف کے داعی بین الاقوامی قوتوں کی یہاں جنم لینے والے انسانی المیوں پر خاموشی اور بے حسی طویل ہورہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بلوچ طالب علم رہنماء ذاکر مجید بلوچ 8 جون 2009 کو پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغواء کیے جانے کے بعد تاحال لاپتہ ہیں، لواحقین کی جانب سے متعلقہ ریاستی اداروں سے متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود بڑی ڈھٹائی سے ذاکر مجید بلوچ کی ریاستی تحویل سے انکار کیا جارہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی جس کے نکات میں انسانی حقوق کی پاسداری اولین ترجیحات قرار پائی تھی، بلوچستان پر نوآبادیاتی قبضے اور بلوچ نسل کشی کو مسلسل نظر انداز کررہی ہے۔اس کردار سے ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ نے نوآبادیاتی ریاستوں کے مفادات کے تحفظ کی ایسی عینک لگا رکھی ہے جس سے اسے استعماری جبر، تشدد اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے شکار وہ متنازعہ خطے نظر نہیں آتے جہاں مظلوم اقوام چیخ رہے ہیں۔
دریں اثناء لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ نے سماجی رابطوں کی سائٹ پر لکھا کہ وہ اذیت ناک تسلسل جس نےہم سےہماری بچپن چھین لی، ہمیں باپ کےشفقت سے محروم رکھا، یہ 12سال کی کربناک داستان جس میں ہم نے یتیموں کی ذندگی گزاری ہے جو روز ہمیں اک نئی جستجو میں ڈال دیتی ہے ہمیں اک نئی چوراہے پہ لاکر کھڑا کردیتی ہے کہ آیا ہم کس سےاپنے بابا کا پوچھیں کس کے سامنے فریاد کریں۔
یہ بھی پڑھیں: بارہ سال گزرنے کے بعد بھی بیٹے کی راہ دیکھ رہی ہوں – والدہ ذاکر مجید
دوسری جانب لاپتہ راشد حسین بلوچ کی بہن فریدہ بلوچ نے کہا ہے کہ بھائی راشد حسین کے کیس کو ریٹائرڈ جج جسٹس فضل الرحمن نے جبری لاپتہ افراد کے حوالے سے قائم کوئٹہ کمیشن سے بغیر کسی وجہ کے کراچی منتقل کیا ہے مگر اب نہ راشد حسین کا کیس شال میں چلایا جا رہا ہے نہ کراچی کمیشن میں۔
راشد حسین کے لواحقین کا کہنا ہے کہ راشد حسین کے کیس کو جج صاحبان متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔