بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق وائس چیئرمین ذاکر مجید کی جبری گمشدگی کو بارہ سال کا طویل دورانیہ مکمل ہونے پر اُن کی والدہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بیٹے کی عدم بازیابی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بیٹے کی بازیابی کےلیے نحیف، کمزور اور بوڑھی ہونے کے باوجود کوئٹہ سے لیکر اسلام آباد تک احتجاجی مظاہرے کرتی رہی ہوں جبکہ تاحال اُن کے بازیابی کی راہ دیکھ رہی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ذاکر مجید بلوچ کو 8 جون 2009 کو مستونگ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، اس دن سے آج تک ہم مسلسل پر امن احتجاج کرتے آرہے ہیں۔ ذاکر مجید کی جبری گمشدگی کے خلاف اُن کی بہن فرزانہ مجید نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے منعقد کی گئی کراچی سے اسلام آباد پیدل لانگ مارچ میں شرکت کی اور بھائی کے جبری گمشدگی کے کیس کو عالمی سمیت ملکی عدالتوں میں پیش کیا۔ عالمی اداروں اور ملکی عدالتوں کی جانب سے مختلف یقین دہانیوں کے باوجود ذاکر مجید بلوچ تاحال لاپتہ ہیں اور اُن کی عدم بازیابی نے خاندان میں کہرام جیسے ماحول کو جنم دیے رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیٹے کی بازیابی کا آس لیے رواں سال خود دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ اسلام آباد کا رخ کرتے ہوئے ڈی چوک پر احتجاجی دھرنا دیا۔ اسلام آباد کے سرد سڑکوں پر کئی راتیں گزارنے کے باوجود انہیں حکومت کی جانب سے کوئی خاطرخواہ کاروائی کی یقین دہانی نہیں کی گئی۔ لاپتہ افراد کے کیسز کو لے کر ہم وزیراعظم پاکستان عمران خان سے بھی مل چکے ہیں لیکن وزیراعظم نے بھی یقین دہانیوں کا سہارا لیکر کسی قسم کے عمل اقدامات کا مظاہرہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ بیٹے کی بازیابی کےلیے آج بھی میں کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد کے سڑکوں پر آس لیے بیٹھی ہوں جبکہ حکومت کی جانب سے کسی قسم کی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ نوجوان بیٹے کے لاپتہ ہونے کی وجہ سے میں اور میرے خاندان کے افراد ایک کربناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، میں حکومت پاکستان سے درخواست کرتی ہوں کہ انسانیت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے لاپتہ افراد کو جلد از جلد بازیاب کریں تاکہ اُن خاندان اس کرب تسلسل سے چھٹکارا پا سکیں۔
اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے کہا کہ 8 جون کو ذاکر مجید کی جبری گمشدگی کو بارہ سال کا طویل دورانیہ مکمل ہو رہا ہے جس کے خلاف مذکورہ تاریخ کو کوئٹہ میں احتجاجی ریلی نکالی جائے گی جس میں تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگوں سے شرکت کی اپیل کی جاتی ہے۔