گوادر میں دو شہریوں کا قتل، کوسٹ گارڈز کے تین اہلکاروں کو 14، 14 سال قید کی سزا

278

بلوچستان کے ضلع گوادر میں دو شہریوں کو قتل کرنے کے الزام میں پاکستان کوسٹ گارڈز کے تین اہلکاروں کو مقامی عدالت نے 14، 14 سال قید کی سزا سنا دی۔

دوہرے قتل کا یہ واقعہ جون 2020 میں گوادر کے علاقے نیو ٹاؤن کے گول چکر چوک پر پیش آیا تھا۔

کیس کے تفتیشی پولیس سب انسپکٹر ظہیر عباس نے میڈیا کو بتایا کہ ’در محمد اور دل مراد کو رات کے اندھیرے میں قتل کرکے کوسٹ گارڈ اہلکار فرار ہوگئے تھے۔‘

تاہم گول چکر کے قریب ایک نرسری کے چوکیدار نے انہیں دیکھ لیا تھا۔ عینی شاہد چوکیدار کے بیان کی روشنی میں پولیس نے کوسٹ گارڈ کے تین اہلکاروں صوبیدار رمضان، نائیک نثار اور نائیک شاہد کو گرفتار کرکے مقدمہ قتل میں نامزد کیا۔

عدالت میں عینی شاہد اور سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر نے گواہی دی۔ مقتولین میں سے ایک نے مرنے سے قبل زخمی حالت میں ڈاکٹر کو بتایا تھا کہ ’انہیں کوسٹ گارڈ کے اہلکاروں نے گولیاں ماریں۔‘

پولیس کے مطابق ’کوسٹ گارڈز کے اہلکاروں نے پہلے واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا اور بعد میں مقتولین کو منشیات سمگلر قرار دے کر ان کے قبضے سے منشیات برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔‘

سیشن کورٹ گوادر کے جج طاہر ہمایوں نے منگل کے روز فریقین کے دلائل، گواہوں کے بیانات اور شواہد کا جائزہ لینے کے بعد مقدمے کا فیصلہ سنایا۔

عدالت نے کوسٹ گارڈز کے گرفتار تینوں اہلکاروں کو نہتے شہریوں کے قتل کا ذمہ دار دیتے ہوئے دو بار 14 سال قید اور فی کس ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔

پولیس کی جانب سے مقدمے کی پیروی سرکاری وکیل الفت ایڈووکیٹ نے کی۔

مجرمان کے وکیل شبیر ایڈووکیٹ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مرنے والے منشیات سمگلر تھے۔ گوادر کے سیشن کورٹ کے فیصلے کو عدالت عالیہ میں چیلنج کیا جائے گا۔‘

حالیہ مہینوں کے دوران سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو کسی شہری کے قتل کے الزام میں سزا سنائے جانے کا یہ دوسرا موقع ہے۔

اس سے پہلے رواں سال جنوری میں تربت کی مقامی عدالت نے طالب علم حیات بلوچ کو قتل کرنے کے الزام میں فرنٹیئر کور کے ایک اہلکار کو سزائے موت سنائی تھی۔ تاہم حیات بلوچ کے کیس پر بڑے پیمانے پر سماجی و سیاسی جماعتوں کیجانب سے پاکستان فوج پر تنقید کی گئی اور فرنٹیئر کور اہلکار کو مورالزام ٹہرانے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔