کہاں ہو تم؟
تحریر: ماہ تاج بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
شال کی ڈھلتی شامیں ان تمام زخموں پر نمک پاشی کرتی ہیں، جو پانچ مہینے پہلے میرے بے ساکت روح کو لگا کر چلے گئے تھے، میں اسی دن سے یہی امید لیکر باہر نکلتی ہوں شاید آپ ان راہوں اور ان گلیوں میں ملیں جو ایک وقت ہمارے رازدار رہ چکی تھیں۔
کسی کو کہو دینے کی کرب اور تکالیف کیا ہوتی ہیں؟ اب میں بخوبی سمجھ چکی ہوں انتظار کا ہر ایک لمحہ صدیوں کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں جب کسی گمشدہ انسان کی آزادی کی خبر کانوں میں پہنچتی ہے تو میں آپ کو ڈھونڈنے لگتی ہوں لیکن اس وقت مجھے مایوسی اپنی بانہوں میں لیتی ہے جب آزادی پانے والا کوئی اور ہوتا ہے آپ نہیں۔
میں کیا بتاؤں یہ پانچ مہینے کس اذیت میں گذرے ہیں، آپکی بے وقت گمشدگی کے بعد چاہتے ہوئے بھی موبائل استعمال نہیں کرسکتی تھی سوشل میڈیا جو آپ کے بعد میرا دوسرا ساتھی ہے لیکن آپ کے بعد دل نہیں چاہ رہا کہ وہاں وقت گزاری کرسکوں. اس دن میں کتنی خوش تھی آپ اپنے گاؤں سے نکل کر شال آ رہے تھے اور آپ نے کہا تھا “آپ کیلئے پسندیدہ کجھور اپنے ساتھ لارہا ہوں میرے لیے وہ دن کتنی اہمیت کے حامل تھی میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی”
میرے لیے وہ لمحہ قیامت سے قطعاً کم نہیں تھی، جب صبح کسی نے میسیج کیا کہ راستے میں کچھ نامعلوم لوگوں نے بس کو روک کر تمہیں اسلحے کے زور پر اپنے ساتھ لے گئے ہیں اور میں یکدم ساکت ہوکر رہ گئی دو دن تک اپنے کمرے سے باہر نہیں نکل پائی نا پڑھائی میں دل لگتا تھا اور نا ہی موبائل استعمال کرنے کو دل مان رہا تھا، اسی دن سے لیکر آج تک میں آپ کی راہ تھک رہی ہوں۔
آپ کے بعد شال کی سرمئی شاموں کو اداسی نے گھیر لی ہیں، جبل نور کی منتظر آنکھیں آپکی راہ تکتے تکتے اب کمزور ہوچکی ہیں ، وہی کیفے ٹیریا جہاں ہم دونوں گھنٹوں بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ اپنی دنیا میں مگن رہتے تھے اب بلکل کسی کھنڈر کا عکس پیش کررہی ہیں، بس اب بہت دیر ہوچکی ، تمہیں اب واپس آنا ہوگا ، تمہیں ہماری مہر و محبت اور شال کی ویرانیوں کو جان بخشنے کیلئے آنا ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں