بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4277 دن مکمل ہوگئے۔ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
لاپتہ راشد حسین کی والدہ نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ راشد حسین کو متحدہ عرب امارات سے جبری طور پر وہاں کے خفیہ اداروں نے لاپتہ کرکے چھ مہینے بعد پاکستان کے حوالے کیا گیا۔
راشد حسین بلوچ کی والدہ آج سپریم کورٹ کے سامنے بیٹے کے بازیابی کے حوالے سے پیش ہوئی تھی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ فرزندوں کی بے باک قربانیوں کی بدولت بلوچ قوم دنیا میں اپنی شناخت مقبوضہ ریاست کی حیثیت میں منوانے میں کامیاب ہوچکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئے روز سول آبادیوں پر بمباری، گھروں کو جلانا، قوم کی اجتماعی نسل کشی کو قابض ریاست اپنی قبضے کے آخری کے دن بند کرے گی۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ مقبوضہ بلوچستان میں لوگوں کو اٹھاکر لاپتہ کرنے کے بعد مسخ شدہ لاشیں برآمد ہونے کا سلسلہ ایک عظیم انسانی المیہ ہے دوسری جانب حکومتی سرپرستی ڈیتھ اسکواڈ کا بلوچ نوجوانوں سمیت خواتین، بزرگ اور بچوں کو قتل کرنے کی اجازت دینا تشویشناک ہے۔
ماما قدیر کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ سال ڈہنک میں بلوچ خاتون ملک ناز کو ان ہی ڈیتھ اسکواڈز کے کارندوں نے قتل اور ننھی برمش کو زخمی کردیا تھا لیکن اس واقعے مرکزی ملزم کا آج بری ہونا یہاں کے نظام انصاف کو واضح کرتی ہے۔