کوئٹہ میں بلوچ لاپتہ افراد کیلئے احتجاج جاری

176

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4287 دن مکمل ہوگئے۔ حب چوکی سے اللہ داد بلوچ، غلام محمد بلوچ، کوئٹہ سے کامریڈ سلطان کاکڑ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا بلوچستان مِن ننگی جارحیت جاری رکھی ہوئی پاکستان کی مرکزی حکومت بھی مسئلے پر بار بار اپنے بیان میں تبدیلی کرتی چلی آئی ہے حالانکہ حقیقت میں پچاس ہزار سے زائد بلوچ فرزند پاکستانی فورسز کے عقوبت خانوں مین قید ہر روز موت کا سامنا کررہے ہیں۔

انہں نے کہا کہ پاکستان انتہائی مجرمانہ انداز میں اس معاملے پر انکاری ہے، عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جونکنے کیلئے پاکستانی حکومت نے متعدد اجلاس منعقد کیے اور کئی کمیٹیاں بھی تشکیل دیں لیکن کوئی بھی کمیٹی آج تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کرسکی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے گمشدہ افراد کے لواحقین کو کوئی بھی قانونی مدد حاصل نہیں ہے۔ ایک انتہائی اہم بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کے ادارے جو اعداد مسنگ پرسنز کے بارے میں شائع کئے تھے انہیں وی بی ایم پی نے رد کردیا تھا۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ آئے روز بلوچستان میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں اغواء اور قتل ہوتے آرہے ہیں اس لیے وی بی ایم پی کق پاکستانی حکمرانوں، پارلیمنٹ اور دیگر اداروں سے کوئی امید نہیں کیونکہ وہ بارہ سالوں سے جھوٹی تسلیوں سے آگے نہیں جاسکے ہیں۔