کوئٹہ : لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے احتجاج جاری

175

بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وی بی ایم پی کے احتجاج کو 4286 دن مکمل ہوگئے۔

مستونگ سے سیاسی و سماجی کارکن محمد رمضان بلوچ، در محمد بلوچ اور مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پر ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ وی بی ایم پی نے ہمیشہ اقوام متحدہ کی توجہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے کہ جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ریاست کیخلاف عالمی قوانین کے تحت کاروائی عمل میں لاتے ہوئے بلوچ قوم کو ریاستی ظلم و جبر سے نجات دلائی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے تنظیم کے پلیٹ فارم سے اس امید کا اظہار کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں، بلوچ سیاسی کارکنوں کی ماورائے آئین گرفتاریوں، گمشدگیوں اور ان کی گولیوں سے چھلنی لاشیں پھینکنے کے واقعات کی روک تھام کیلئے نہ صرف ریاست پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے بلکہ بلوچ قوم کو ظلم و جبر سے نجات دلانے کیلئے اپنا موثر اور عملی کردار ادا کریں گے۔

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ آج پرامن جدوجہد کو اتنی کمزور اور لاوارث نہ سمجھا جائے کہ چند غیر ذمہ دار افراد کے غیر سنجیدہ اور غیرذمہ دارانہ عمل سے یرغمال بنایا جاسکے گا۔ اگر بلوچ کے صفوں میں کوئی اس طرح کی کوشش کرکے شہداء بلوچ کی انمول لہو کو اپنے سطحی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا ہم میدان میں مزاحمت کرینگے۔

دوسری جانب یکم جولائی 2010 کو میاں غنڈی لکپاس کے قریب سے پاکستانی خفیہ اداروں  کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے شمس الدین بلوچ کے اہلخانہ کی جانب سے 18 اپریل کو ایک ٹویٹر کیمپین چلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ فیس بک پہ خالد قاضی نے تیس سیکنڈوں پر مشتمل ایک مختصر ویڈیو میں کہا ہے کہ میرے انکل شمس الدین بلوچ کو یکم جولائی 2010 کو پاکستانی خفیہ اداروں  نے میاں غنڈی لکپاس کے قریب حراست میں لے کر لاپتہ کردیا جن کو گیارہ سال مکمل ہوچکے ہیں اور وہ تاحال لاپتہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ شمس الدین کے لئے انکے فیملی کی جانب اس اتوار (18 اپریل) کو رات چھ بجے سے رات بارہ بجے تک saveshamsbaloch# سے ایک ٹویٹر کمیپن چلایا جائیگا انہوں نے سوشل میڈیا صارفین سے درخواست کی ہے اس کمپین  میں بھرپور حصہ لیں۔