پیاسا ‏کلانچ – زرینہ بلوچ

315

پیاسا ‏کلانچ

تحریر: زرینہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں جینے کیلئے ہوا، پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ۔ پہلے نمبر پر ہوا دوسرا پانی ،پانی انسانی زندگی کا اہم جزو ہے۔ اللہ پاک کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت پانی ہے۔ یہ انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ تمام جانداروں کی حیات و بقا کا دار مدار پانی پر ہے۔ہم پانی کے کمی کی اہمیت تب سمجھ سکتے ہیں جب ہمیں پیاس کی شدت محسوس ہو اور پانی ہمارے آس پاس میسر نہ ہو۔

کلانچ بلوچستان کا ایک بہت بڑا گاؤں ہے۔جو پسنی کے شادی کور سے شروع ہوکر دشت تک ختم ہوتا ہے اس درمیان جو بھی علاقے آتے ہیں وہ کلانچ کے ہیں۔ مثلاً سردشت، شادی کور ،زھرے کوّر، چُر بندر، زمین توک، چاکُلی، کلّگ، چیلری ،چبوری، جانداری، ہڈوکی، بل ہڈوکی، بیلار، تلار، تل، ڈاک بازار پہلاڈو امبی اور ریکنی وغیرہ۔

ان سب گاؤں میں نہ بجلی نہ پانی موجود ہے نہ ہسپتال اور نہ کوئی اچھا اسکول ان سب علاقوں میں بہت سی بنیادی ضرورتیں موجود نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مجبورا نقل مکانی کر کے پسنی ،گوادر اور تربت چلے گئے ہیں اپنے آبا و اجداد کی جگہوں کو چھوڑنا آسان کام نہیں لیکن انسان باقی چیزوں کے بنا رہ سکتا ہے لیکن پانی کے بغیر نہیں۔پانی کا مسئلہ آج کا نہیں ہے یہ مسئلہ بیس یا تیس سالوں سے ہے لیکن ہمارے کسی حکمران نے کبھی بھی زحمت نہیں کی جس سے اس مسئلہ کا حال ہوتا۔

پانی کی کمی کی وجہ سے کلانچ کی سرسبز و شاداب زمینیں بنجر بن چُکی ہیں اور بہت سے مویشی مر چُکے ہیں۔

کچھ لوگ آج بھی کلانچ کو چھوڑنا نہیں چاہتے کیونکہ وہ اپنے زمینوں سے بہت زیادہ محبت کرتی ہیں اور کچھ لوگ یہ گنجائش نہیں رکھتے۔

کلانچ میں ہسپیتال کہیں نہیں ہے، وہاں کے لوگوں کو جب بھی کوئی بیماری ہوتی ہے تو علاج کیلے گودار پسنی یا تربت جاتے ہیں اور آنےجانے میں ہزار پندرہ سو کرایہ لگتا ہے ۔اگر جب کوئی سیریس کیس ہو مثلاً اگر کسی حاملہ عورت کو لیبر ہو اور اسکا کیس سیریس ہو تو وہاں پر کوئی ایسی سہولیت موجود نہیں جس سے ماں اور بچے دونوں کی زندگی بچاۓ جاسکیں۔ اگر کوئی شہر میں آنے کی کوشش کرے کسی ڈاکٹر کے پاس تو ایک مسئلہ وہاں ٹرانسپورٹ کا بھی ہے کہ اُسکا وقت گاڑی کا ملنا بہت مشکل ہے کیونکہ وہاں کی لوکل گاڑیاں صبح سویرے شہر روانہ ہوتی ہیں، ایسی صورت میں ماں اور بچہ دونوں میں سے کسی کو بے موت آسکتی ہے۔اگر کسی شخص کو اپینڈکس کا درد ہو تو وہ وہاں پر درد کے دوران ہی فوت ہو سکتا ہے کیونکہ کلانچ سے شہر دو یا تین گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔

کلانچ میں بہت سے علاقوں میں اسکول موجود نہیں ہے، جن جگہوں میں اسکول ہے تو وہاں ٹیچروں کا بُحران چل رہا ہے۔ اور کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں کچی سے لیکر پرائمری تک کا استاد ایک ہے جو سب کو پڑھاتا ہے یہ بھی سوچنے والی بات ہے ایک استاد اتنے بچوں کو کیسے پڑھا سکتا ہے اگر پڑھاتا ہے بھی تو کیا سارے بچے سمجھ جاتے ہیں کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں؟

کلانچ میں بہت سی ایسے جگہیں ہیں، جہاں پر ٹھیک طریقے سے نیٹ ورک موجود نہیں، نیٹ تو دور کی بات ہے لوگوں کو فون کال کرنے کیلے پہاڑوں پر چڑ ھ کر چلا چلا کر بات کرنا پڑتا ہے اور کھبی کھبار تو نیٹ ورک کسی جگہ پر بھی ملتا نہیں۔

کلانچ کے لوگ ایکسویں صدی میں بھی بجلی سے محروم ہیں، وہاں پر بجلی کا نام و نشان نہیں وہاں کے لوگ اس دور میں رہ رہے ہیں، جس دور میں بجلی دریافت نہیں ہوئی تھی۔آجکل کچھ لوگ سولر سسٹم استعمال کر رہے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کے پاس سولر خریدنے کے پیسے بھی نہیں۔

کلانچ کے لوگ ایک ایک بوند پانی کیلے ترس رہے ہیں اگر وہ کسی لوکل ٹینکر سے پانی لیتے ہیں تو ٹینکر والے ان سے 6000 اور کچھ علاقوں میں 12000 مانگتے ہیں۔غریب لوگ اتنے سارے پیسے کہاں سے لا سکتے ہیں، اگر انکے پاس اتنا پیسہ ہوتا تو وہ کیسے ایسی جگہ رہتے جہاں زندگی کا کوئی بنیادی سہولت موجود نہیں ہے۔

کلانچ کے علاقے میں لوگ کاشت کاری کرتے اور بھیڑ بکریوں سے اپنا گزارا کرتے ہیں اور کچھ لوگ تیل کا کاروبار کرتے ہیں لیکن بارڈر بند ہونے کی وجہ سے انکا کاروبار کازریعہ بند ہے اور پانی کی کمی کی وجہ سے کاشت کاری بھی نہیں ہوتی ہے تو زرا سوچیئے وہاں کہ لوگ کیسے جی رہے ہیں ؟

کلانچ کے نزدیک تین ڈیمیں ہیں شادی کور ڈیم، سوڈ ڈیم اور بیلار کا ڈیم ان سب ڈیموں میں پانی موجود ہے ۔شادی کور ڈیم سے پانی گوادر کو دیا جا رہا ہے اگر اُسی طریقے سے ہمارے حکمران ہمت کرکے انہی ڈیموں سے پانی کلانچ کو دینے کی زحمت کر لیں۔ رمضان کے مہینے میں کلانچ میں رہنے والے کیسے اپنا گزارا کر رہے ہیں، بغیر پانی کے خدا بہتر جانتا ہے۔ پانی کے بغیر جینا آسان نہیں ۔پانی زندگی گزارنے کیلۓ بہت ضروری ہے۔خدارا کلانچ والوں کی مدد کریں ان تک پانی کسی بھی طریقے سے پہنچا دیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔