لسبیلہ میں فیسٹیول نہیں ہو سکتا! – عابد میر

334

لسبیلہ میں فیسٹیول نہیں ہو سکتا!

تحریر: عابد میر

دی بلوچستان پوسٹ

لسبیلہ لٹریچر فیسٹیول کا بنیادی خیال گزشتہ برس آواران کے میلے پر واپسی کے سفر میں اپنے ظہیر ظرف سے ڈسکس ہوا تھا۔ اُس نے فوراً اس پہ کام شروع کیا۔ ٹیم بنائی، یہاں وہاں سے پیسہ اکٹھا کیا۔ مگر پھر معاملات کورونا کی نذر ہو گئے اور گزشتہ برس یہ فیسٹیول ہوتے ہوتے رہ گیا۔

اب اُس نے مارچ کے ابتدائی ہفتے میں اعلان کیا تو حب کے کچھ نوجوانوں نے انھی دنوں میں ایک اور تقریب رکھ دی۔ یوں فیسٹیول ایک مہینہ آگے چلا گیا۔ وقت کا فایدہ اٹھا کر اس دوران انھوں نے ایونٹ کی خوب پروموشن کی۔ لیڈا کا آڈیٹوریم اس کے لیے حاصل کیا۔ بلوچستان سمیت، کراچی سے اردو کے معروف ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، دانشوروں کو مدعو کیا۔

دوسری جانب ظہیر کے اس فیسٹیول کا شروع دن سے مخالف گروپ مختلف حیلے بہانوں سے اس کے خلاف سازشیں تراشتا رہا۔ سرکار کے کان بھرے گئے کہ یہ آپ کے مخالف سیاسی گروپ (بھوتانی گروپ) کے لوگ ہیں اور آپ کی سلطنت میں پروگرام کرنے جا رہے ہیں۔ یوں کان کی کچی سرکار نے مختلف حیلے بہانوں سے روڑے اٹکانے شروع کیے۔

پچھلے ہفتے امر جلیل کا معاملہ اٹھا تو اس کی آڑ لے کر ایک مقامی سیاسی مولوی کو آگے کیا گیا جنھوں نے میوزک کی مخلوط محفل اور امر جلیل کی مبینہ شرکت کے پیشِ نظر فیسٹیول کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔ حالاں کہ دونوں باتیں غلط تھیں، دونوں کا فیسٹیول سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس کے باوجود ظہیر اور اس کی ٹیم مولوی سے جا کر ملی، اپنا نکتہ نظر واضح کیا اور یوں یہاں سے اپنی جان خلاصی کروا لی۔

مگر اب لیڈا نے کورونا کا بہانہ بنا کر جگہ دینے سے انکار کر دیا۔ ٹیم نے انہیں مطمئن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر ’’ذرائع‘‘ نے بتایا کہ سرکار کی طرف سے براہِ راست منع کیا گیا ہے، اس لیے کوئی چارہ نہیں۔ نوجوانوں نے اپنے تئیں کوئی اور مقام دیکھنے کی کوشش کی مگر سرکار نے دفعہ 144 لگا کر ان کے لیے راستے مسدود کر دیے۔ حالاں کہ انھی دنوں میں حب میں دو بڑے خاندانوں کی شادیاں بھی ہیں۔ شنید میں ہے کہ پانچ اپریل کو حب کالج میں بھی کوئی تقریب ہے۔ کوئٹہ میں یہی دفعہ نافذ ہے، یہاں بھی کل پرسوں ایک فیسٹیول ہو رہا ہے، شہر میں دھرنے اور تقریبات جاری ہیں۔ رکھنی میں کلچر ڈپارٹمنٹ کے تعاون سے فیسٹیول ہو رہا ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ کے حلقے کے ہوشاب کالج میں ان کی سرپرستی میں پورے ہفتے کا سپرنگ فیسٹیول جاری ہے۔ تربت کالج میں سائنس ایگزبیشن ہو رہا ہے۔

لیکن سرکار کا حکم ہے کہ لسبیلہ لٹریچر فیسٹیول نہیں ہو سکتا۔

کیوں؟

کیوں کہ اس کے لیے سرکار دربار کی آشیرباد حاصل نہیں کی گئی۔ کیوں کہ اس لیے جام صاحب یا ان کے چمچوں کو چیف گیسٹ نہیں بنایا گیا۔ کیوں کہ اس میں حکومت پہ تنقید ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ یہ فیسٹیول سرکار کی مدد اور پشت پناہی میں نہیں ہو رہا!

ہمارے نوجوان ساتھی ظہیر ظرف کے لیے حالات اس قدر مشکل بنا دیے گئے ہیں کہ اس نے فیسٹیول سے دستبردار ہونے کے ساتھ ساتھ میری طرح اپنے آبائی علاقے سے ہجرت کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ جب زمین بنجر ہو جائے تو ثمرآور فصلوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔ ایسے میں آپ نے بس اتنا طے کرنا ہوتا ہے کہ آپ زمین کو بنجر بنانے والوں کے ساتھ ہیں یا اسے آباد رکھنے کی سعی کرنے والوں کے ساتھ۔

باقی جن کے ڈی این اے میں بارآوری لکھی ہے، وہ زمین کے جس ٹکڑے پر بھی رہیں گے، اسے آباد کرنے کی سعی کرتے رہیں گے، چلتے رہیں گے، آگے بڑھتے رہیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔