لال ہونٹ اُسے خراج پیش کریں گے
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
تاریخ گواہ ہے، تاریخ کسی کا قرض نہیں رکھتا۔ آج آزاد ہونٹ غلام ہونٹوں کو چوم رہے ہیں۔ ایسے جیسے کوئی عاشق اپنی محبوبہ کے رس بھرے ہونٹ چوم لیتا ہے۔ شہد سے بھرے ہونٹ۔محبت سے لبریز ہونٹ۔ کالے ہونٹ آگے بڑھ کر گلابی ہونٹوں کو چوم لیتے ہیں۔موٹے ہونٹ آگے بڑھ کر پھول کی پتیوں جیسے ہونٹوں کو چومتے ہیں اور نعرہِ مستانہ لگا تے ہیں۔ کالے ہونٹ گلاب جیسے ہونٹوں کو چومنے کے بعد سرمستی میں مست ہو جا تے ہیں۔ یہی وہ انعام ہوتا ہے جو تاریخ انہیں دے رہی ہو تی ہے جنہوں نے تاریخ سے ریپ نہیں کیا ہوتا۔یہی وہ مستی ہوتی ہے جو جوان جسموں کو اس بات پر مجبور کر تی ہے کہ وہ اپنے گلابی ہونٹوں سے ان نعروں کو لگائیں جن نعروں کو تاریخ کی دھول کبھی دفن ہونے نہیں دیتی۔ یہی وہ انعام ہوتا ہے کہ پیارے آزاد ہونٹ بند غلام ہونٹوں کو چومیں آگے بڑھیں اور اپنے ہونٹوں سے ان ہونٹوں کو چوم لیں جو ہونٹ غلام تھے پر تاریخ نے ان ہونٹوں کو آج ایسے زندہ جاوید کیا ہوا ہوتا ہے کہ گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹ ان ہونٹوں کی مہ پینا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں اور مست ہوکر وہ نعرہ لگا تے ہیں کہ ماضی کی شکستہ مزاروں میں بند غلاموں کے ہونٹ بھی ان مست جوان جسموں کی چمیوں سے کانپ جاتے ہیں پر پھر بھی حسین جسموں کے حسین ہونٹ غلاموں کے ہونٹوں کو چومنے سے باز نہیں آتے۔
آج بھی حیدر آباد کے قلعے میں ایک غلام نعرہِ مستانہ لگا کر سو رہا ہے
اور تا ریخ اسے کبھی فراموش نہیں کر پا رہی اور جوان جسموں کے خوبصورت ہونٹ ٹولیوں کی صورت میں جا تے ہیں۔اپنے جسموں پر تنگ خوبصورت کپڑے پہنے جن کپڑوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بس کلیاں گلاب ہونے کو ہیں۔اپنی خوبصورت چھاتیوں کے درمیاں اپنے محبوبوں کے ناموں کے الفاظ بیٹ پہنے اپنے ہاتھوں کی کلائیوں میں تعفہ سجائے اپنے نازک جسموں پر خوشبوؤں کا لیپ کیے اپنے پتلے خوبصورت ہونٹوں پر سُرخ لپ اسٹیک سجائے جب اس غلام کے موٹے،کالے، بے ہودہ ہونٹوں سے نکلے نعرہ،،مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں،،کو اپنی خوبصورت ادا سے دہرا تے ہیں تو شکستہ مزار سے تاریخ اس غلام کو اُٹھا کر بٹھا دیتی ہے اور کہتی ہے،،سنو!ہوشو سنو اور کیا چاہیے جب اتنے حسین خوبصورت ہونٹ تمہا رے نعرے کو دھرا رہے ہیں،،
تو تاریخ ہی کیا پر ہوشو بھی محسوس کرتا ہے کہ وہ سب خوبصورت ہونٹ آگے بڑھ کر اس غلام کے کالے ہونٹوں کو ایسے چوم رہے ہیں جیسے شہد پھولوں سے رس چوم لیتی ہے!
ابھی تو بس فیض فبول نے نعرہِ مستانہ لگایا ہے کہ
،،دھرتی ماں ہو تی ہے اور میں ماں کو کیسے بیچ سکتا ہوں!،،
ابھی تو وہ نعرہ فضاؤ میں بکھرہ ہی نہیں
ابھی تو وہ نعرہ تاریخ بھی درج ہوا ہی نہیں
تاریخ کیا پر ابھی تو نعرہ ایف آئی آر کا روپ بھی نہیں دھار سکا
ابھی تو وہ نعرہ کسی کورٹ میں بطور ثبوت پیش نہیں ہوا
ا بھی تو ہ نعرہ فیض گبول کے ساتھیوں اور اس کے بیٹے کے درمیان زیرِ بحث ہے
ابھی تو وہ نعرہ خوشبو بن کر پھیلا ہی نہیں
ابھی تو وہ نعرہ آکاش انصاری کے یہ بول بنا ہی نہیں
،،جڈھن منھنجو خون خوشبو تھی ایندو
تہ ویڑھا وطن جا بہ واسے چھڈیندو!،،
ابھی تو اس نعرے نے وطن کو اپنی خوشبو سے مہکایا ہی نہیں
ابھی تو یہ نعرہ ملیر کی گلیوں میں رُل رہا ہے
ابھی تو یہ نعرہ بحریہ ٹاؤن کے لیے ڈراؤنا خواب بنا ہی نہیں
ابھی تو یہ نعرہ اہلیان سندھ کی سمجھ میں آیا ہی نہیں
ابھی تو یہ نعرعوامی کچھیریوں کا موضوع بنا ہی نہیں
ابھی تو یہ نعرہ فائیلوں میں درج نہیں ہوا
ابھی تو یہ نعرہ کسی کورٹ میں بطور ثبوت پیش نہیں ہوا
ابھی تو یہ نعرہ سندھ کی گلیوں میں حقل بن کر بکھرہ ہی نہیں!
جب یہ نعرہ سندھ میں خوشبو بن کر بکھرے گا!
جب یہ نعرہ سندھ کیا پر پوری دنیا کے حسین انسانوں کو سمجھ آئیگا
جب یہ نعرہ دنیا کے خوبصورت حسین ہونٹوں سے ادا ہوگا
جب جوان خوبصورت ہونٹ آگے بڑھ کر اس نعرے کو چومیں گے
جب لال گلابی ہونٹ اس بوڑھے ہونٹوں کو چوم لیں گے
جن ہونٹوں سے یہ نعرہ ادا ہوا
تو تاریخ فیض گبول کو اُٹھا کر بٹھا دیگی
اور کہے گی
،،دیکھو!فیض جوان جسموں والے جوان خوبصورت ہونٹ کیسے تمہا رے ہونٹوں کو چوم رہے ہیں
فیض!تم تاریخ کے دھول میں دفن نہیں ہو سکتے!،،
اور جوان خوبصورت ہونٹ اپنے پیا رے ہونٹوں سے ادا کر رے ہونگے
وہ نعرہ!
جو نعرہ بھی ہے
خوشبو بھی ہے
اور
نشہ بھی ہے
جب وہ تاریخ میں پہلی رپورٹ ہوگی جو کئی خوبصورت ہونٹ ایک ساتھ تاریخ کے پنوں میں درج کر وا رہے ہونگے اور کئی بھنورے ان ہونٹوں پر ایسے فدا ہو رہے ہونگے جیسے عاشق اپنی محبوباؤں کے ہونٹوں پر مر مٹتے ہیں اور ایک حسین خوبصورت سی پتلے ہونٹوں والی لڑکی جب اپنے پیا رے ہونٹوں سے ادا کریگی وہ نعرہ کہ
،،،،دھرتی ماں ہو تی ہے اور میں ماں کو کیسے بیچ سکتا ہوں!،،
تو تاریخ خود کہہ اُٹھے گی کہ
،،ہر اک اولیِ الامر کو صدا دو
کہ اپنی فرد ِعمل سنبھالے
اُٹھے گا جب جمعِ سر فروشاں
پڑیں گے دارو رسن کے لالے
کوئی نہ ہوگا جو بچالے
جزا سزا سب یہیں پہ ہوگی
یہیں عذاب و ثواب ہوگا
یہیں سے اُٹھے گا شورِ محشر
یہیں پہ روزِ حساب ہوگا!،،
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔