غیر محفوظ بلوچ پناہ گزین – ٹی بی پی اداریہ

942

غیر محفوظ بلوچ پناہ گزین

دی بلوچستان پوسٹ اداریہ

افغانستان کے شہر اسپن بولدک میں ایک بار پھر چار بگٹی بلوچ پناہ گزینوں کوٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے، جسکے نتیجے میں چاروں بلوچ پناہ گزین جانبحق ہوگئے۔ اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے بلوچ ریپبلکن پارٹی کے صدر اور بگٹی قبیلے کے سربراہ براہمداغ بگٹی نے سماجی رابطوں کے ویب سائٹ ٹوئٹر پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ” پاکستانی خفیہ ادارے اس حملے میں ملوث ہیں”

اتوار کے روز جانبحق ہونے والے بلوچ مہاجرین کی شناخت غلام نبی بگٹی، جنگی بگٹی، ساکا بگٹی اور امیر جان بگٹی کے ناموں سے ہوئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ وہ بگٹی مہاجرین تھے، جو سنہ 2006 میں نواب اکبر خان بگٹی کی ایک فوجی آپریشن میں شہادت کے بعد ہجرت کرکے افغانستان منتقل ہوگئے تھے۔

بلوچستان میں جاری آپریشنوں سے بچنے کیلئے جہاں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سندھ اور پنجاب مہاجرت پر مجبور ہوئے ہیں وہیں جنگ کی تباہ حالیوں سے بچنے کیلئے بڑی تعداد میں بلوچ افغانستان بھی ہجرت کرکے پناہ گزینوں کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت افغانستان دنیا میں سب سے زیادہ بلوچ مہاجرین کو پناہ دینے والا ملک ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے مکران ریجن کے بلوچ بڑی تعداد میں ہجرت کرکے گولڈ سمڈ لائن کے پار مغربی بلوچستان میں رہ رہے ہیں۔

ہجرت کے باوجود، بدقسمتی اور جنگ کے اثرات ان بلوچوں کے پیچھے ان دوسرے ممالک تک بھی پہنچ چکی ہے۔ بلوچ مہاجرین، ان ممالک میں بغیر کسی عالمی امداد کے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں غیر محفوظ زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔

گذشتہ چند سالوں کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ افغانستان اور مغربی بلوچستان (ایران) میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے جاچکے ہیں۔ بلوچ لیڈران اور میزبان ممالک کے حکام، ان حملوں کا الزام پاکستان کے خفیہ اداروں پر لگاتے آئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بلوچ مہاجرین پر ہونے والے ان حملوں کی پرچار ان اکاونٹ سے ہونا جنہیں پاکستانی فوج سے جڑا سمجھا جاتا ہے، ان الزامات کو مزید تقویت بخشتی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ نے گذشتہ چند سالوں سے ہونے والے ان حملوں کی ایک تعداد مرتب کی ہے، جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچ مہاجرین کس کسمپرسی میں زندگی گذار رہے ہیں۔ مندرجہ ذیل فہرست اسی اعداد و شمار کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔

۔ 3 مئی 2018 کو مغربی بلوچستان میں ایک بلوچ مہاجر عیسیٰ ولد محراب کو گرگی کے علاقے میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔
۔ 22 مئی 2018 کو نامعلوم مسلح افراد نے مزید دو بلوچ مہاجرین پرزاد اور نورجان کو دشتیار کے علاقے میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جسکے نتیجے میں وہ جانبحق ہوگئے۔
۔ 22 جون 2018 کو افغانستان کے علاقے اسپن بولدک میں بلوچ مہاجرین کے ایک گاڑی کو آئی ڈی حملے میں نشانہ بنایا گیا۔
۔9 ستمبر 2018 کو بلوچ نوجوان سورج ولد اقبال کو سراوان ایران میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔
۔8 اکتوبر 2018 کو چاہبار میں نثار زامرانی نامی بلوچ مہاجر کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
۔10 مئی 2019 کو افغانستان کے شہر کندھار میں ایک بلوچ گزین کے گھر پر وی بی آئی ڈی حملہ کیا گیا۔ مذکورہ بلوچ پناہ گزین کو اس حملے سے کچھ دن پہلے مرکزی بازار میں بھی نشانہ گیا تھا لیکن وہ حملہ آور کو غیرمسلح کرکے بچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
۔24 مئی 2019 کو کندھار کے علاقے عینومینہ میں بگٹی بلوچ مہاجرین کے ایک گاڑی کو آئی ای ڈی حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا، جسکے نتیجے میں خواتین و بچے زخمی ہوئے تھے۔
۔28 مئی 2019 کو ایک بار پھر نامعلوم افراد نے کندھار میں بلوچ مہاجرین کے ایک گھر پر دستی بم سے حملہ کیا۔
۔ 2 جولائی 2019 کو کندھار شہر میں نامعلوم افراد نے بلوچ مہاجر عرض محمد مری کو فائرنگ کرکے قتل کردیا۔
۔25 جولائی 2019 کو ایک بار پھر بلوچ مہاجرین کے گھروں پر کندھار میں دستی بم حملے کیئے گئے۔
۔22 اگست 2019 کو تین بلوچ مہاجرین کو ایران کے علاقے کرگس میں فائرنگ کرکے جانبحق کیا گیا۔ مقتولین کی شناخت اسحاق اور وحید کے ناموں سے ہوئی۔
۔24 دسمبر 2019 کو ایک بلوچ مہاجر کے گھر کو آئی ای ڈی حملے میں نشانہ بنایا گیا۔ جسکے نتیجے میں خواتین و بچے زخمی ہوئے۔
۔ 3 فروری 2020 کو ایران کے علاقے کرگس میں ایک بلوچ مہاجر تود ولد حمل کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔
۔ 5 مارچ 2020 کو ایران میں دو مختلف حملوں میں دو بلوچ مہاجرین جانبحق ہوگئے۔ پہلا حملہ چاہبہار میں ہوا جہاں رحمدل ولد عبداللہ کو نشانہ بنایا گیا، دریں اثنا ماسٹر علی کو سراوان میں نشانہ بنایا گیا۔
۔ 25 اپریل 2020 کو اایران میں ایک بلوچ مہاجر زاھد بلوچ کو انکے ایک دوست کے ہمراہ فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا۔
۔ 30 اپریل 2020 کو عبدلوحید ولد شفی محمد کو ایران کے علاقے احمد آباد میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔
۔12 اگست2020 کو ایک بلوچ نوجوان فارس بلوچ کو اغوا کرکے، انکی گولیوں سے چھلنی لاش ایران کے علاقے درگس ڈیم کے قریب پھینکی گئی تھی۔
۔20 دسمبر 2020 کو نامعلوم مسلح افراد نے افغانستان کے علاقے کندھار میں بلوچ پناہ گزینوں کے ایک گاڑی کو فائرنگ کا نشانہ بنایا جسکے نتیجے میں گلبہار بگٹی اور انکے بیٹے مراد علی بگٹی جانبحق ہوگئے۔ سنہ 2011 میں بھی گلبہار بگٹی کے گھر پر ایک خودکش حملہ کیا گیا تھا جسکے نتیجے میں انکے ایک بیٹے درخان بگٹی اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ جانبحق ہوئے تھے۔
۔9 جنوری 2021 کندھار میں بلوچ مہاجرین کے ایک گھر کو بم حملے میں نشانہ بنایا گیا، جسکے نتیجے میں گھر منہدم ہوگیا تھا لیکن وہاں مقیم مہاجرین معجزانہ طور پر بچ گئے تھے۔
۔12 مارچ 2021 کو مسلح افراد نے بلوچ مہاجر عبدالرحمان کو انکے گھر کے اندر فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

بلوچ مہاجرین پر حملوں اور دھمکیوں کا سلسلہ محض افغانستان و ایران تک موقوف نہیں ہے۔ اب تک سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے متعدد بلوچ مہاجرین کو گرفتار کرکے لاپتہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح مغربی ممالک میں مقیم بہت سے بلوچ پناہ گزین مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ اداروں کی جانب سے دھمکیاں موصول کرچکے ہیں۔ بلوچوں کے حقوق کیلئے متحرک مختلف تنظیمیں بلوچ صحافی ساجد حسین اور بلوچ رہنما کریمہ بلوچ کے قتل کا الزام بھی پاکستانی خفیہ اداروں پر عائد کرتے رہے ہیں۔

بلوچ سیاسی جماعتوں کا عالمی اداروں سے یہ بھی شکوہ رہا ہے کہ نا صرف بلوچ مہاجرین کو تحفظ فراہم نہیں کی جارہی بلکہ انہیں یو این ایچ سی آر میں بھی رجسٹر نہیں کیا جارہا ہے۔

وقت آگیا ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے، خاص طور پر یو این ایچ سی آر بلوچ مہاجرین کی تحفظ کو یقینی بنائے۔ یہ میزبان ممالک کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ عالمی اصولوں کے مطابق ان مہاجرین کی تحفظ کو اپنے ممالک میں یقینی بنائیں۔