سوراب: ماما قدیر کے بھتیجوں سمیت 5 نوجوان جبری طور پر لاپتہ

1105

سوراب سے پاکستانی فورسز نے ماما قدیر کے دو بھتیجوں سمیت پانچ نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے۔

ٹی بی پی نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق سوراب شہر سے پاکستانی فورسز نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کے دو بھتیجوں محمد آصف ریکی، الہ دین ریکی ولد شبیر احمد ریکی سکنہ دمب سوراب کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔

مذکورہ نوجوانوں کے ہمراہ مزید تین نوجوانوں محمد عرفان ولد محمد حکیم ریکی، ذالقرنین ولد حاجی فرید ریکی سکنہ دمب سوراب جبکہ ایک نوجوان جس کی شناخت تاحال نہیں ہوسکی ہے، کو پاکستانی فورسز نے لاپتہ کردیا ہے۔

علاقائی ذرائع نے ٹی بی پی کو بتایا کہ پاکستانی فورسز فرنٹیئر کور اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے سوراب بازار کو مکمل گھیرے میں لینے کے بعد  ایک دکان پر دھاوا بولا جہاں ماما قدیر بلوچ کے بھتیجوں محمد آصف اور الہ دین ولد شبیر احمد ریکی کو حراست لیا گیا۔

ذرائع کا مزید کہنا ہے دکان کے باہر موجود دیگر تین نوجوانوں کو بھی حراست میں لیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق فرنٹیئر کور اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے نوجوانوں کو دکان میں حراست میں لیکر ان کے چہروں پر سیاہ کپڑے ڈال دیئے اور گاڑیوں میں لے گئے۔

مذکورہ نوجوانوں کے لواحقین نے ان کے جبری گمشدگی کے حوالے سے ایف آئی آر درج کرلی ہے۔ تاہم حکام نے تاحال اس حوالے سے کوئی موقف پیش نہیں کیا ہے۔

ماما قدیر بلوچ گذشتہ ایک دہائی کے زائد عرصے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کیخلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے آواز اٹھا رہے ہیں۔ ماما قدیر بلوچ کے بیٹے جلیل ریکی 13 فروری 2009 کو کوئٹہ کی سریاب روڈ سے لاپتہ ہوگئے تھے۔

تین سال کے بعد جلیل ریکی کی تشدد زدہ لاش ضلع کیچ کے علاقے مند سے ملی۔

جلیل ریکی ایک بینک میں ملازم تھے۔ کچھ عرصے بعد وہ ملازمت چھوڑ کر نواب اکبر بگٹی کی جماعت جمہوری وطن پارٹی میں شامل ہوگئے۔ نواب کی ہلاکت کے بعد ان کی وابستگی نواب کے پوتے براہمداغ بگٹی سے ہوگئی اور انہیں بلوچ ریپبلکن پارٹی کا مرکزی سیکریٹری اطلاعات مقرر کیا گیا۔

بیٹے کی جبری گمشدگی سے لیکر لاش ملنے کے بعد بھی ماما قدیر بلوچ احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔