خضدار واقعہ – شبیر بلوچ

386

خضدار واقعہ

تحریر: شبیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کل خضدار پولیس نے ظلم کی ایک اور انتہا کردی۔جرم، مجرم، سزا اور قانون کی بات الگ مگر پولیس ایک ایسا محکمہ ہے جس میں اکثر و بیشتربلوچستان کے لوکل لوگوں کو فائدہ پہنچتاہے خاص طورپر سپاہی ایس ایچ او تو اسی شہر یا ضلع کے ہی ہوتے ہیں جہاں سے انکا لوکل وغیرہ ہو۔

پولیس کے پاس کیا اختیارات ہیں اور وہ شہریوں پہ ان اختیارات کو کیسے استعمال کرسکتاہے۔اسکا درس دینے اور جسمانی مضبوطی ،ناگزیر واقعات پیش آنے پہ کیا کیا کرنا چاہیئے کا ایک مکمل کورس ہوتا ہے۔کورس کے مدت کے بعد بھی چند مہینے یا ہفتے انکو بغیر بندوق کے صرف لاٹھی کے ساتھ اسلیئے چوکوں پہ کھڑا کیا جاتاہے کہ انکے صبر وتحمل اور ناخوشگوار واقعات کے بعد انکی ڈیلنگ دیکھا جائے تب انکو بندوق ہاتھ میں تھمادیا جاتاہے، اسی غرض سے کہ وہ اس بندوق کا ناجائز استعمال اور جائز استعمال سے اچھی طرح واقف ہوں۔

بلوچستان کے اکثر و بیشتر علاقوں میں پولیس لیویز کا ایک بھائی جیسی اہمیت رہی ہے ، خاص طور پر مظاہرہ وغیرہ و دیگر اجتماعات میں پولیس نے بہت مہذب انداز سے قانونی طریقہ کار سے نوجوانوں کو واقف کراکے ان کو اپنے بچوں کی طرح بٹھاکے انکے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور کئی جگہوں پہ پولیس و لیویز انتہائی ملنثاری کے ساتھ آج تک بلوچ قومی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ملکر مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

مگر بلوچستان کے سیاسی حالات کنٹرول میں نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے کئی ضلعوں بیشتر بلوچ آبادی سے منسلک ضلعوں میں ڈپٹی کمشنر زیادہ تر آرمی سے ریٹائرڈ میجر یا دیگر کولاکر مکمل طور پہ پولیس اور لیویز کو بھی آرمی کی B پارٹ بنا دیا ہے۔ پولیس لیویز کے اکثر رنگ روٹ آرمی کے ہی تحت اپنا ٹریننگ مکمل کرتے ہیں جسمانی حوالے سے فٹ رہنے کےلیئے گوکہ آرمی کا طریقہ کار انکے لیئے صحیح ہو قبائلی علاقوں میں چلنے کے لیئے انکو طریقے سے ڈیل کرنا ہوتا ہے مختصراً لیویز بنا بھی اسی لیئے ہے۔

مگر بلوچ علاقوں میں انکو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عوام کے خلاف کھڑا کیا جارہا ہے اور انکو مکمل چھوٹ ملی ہے جوکریں جیسا کریں بعد میں ریاستی میڈیا اپنی مرضی سے نقصان ہونے والے قصور، بے قصور سب کو بلوچ مسلح تنظیموں سے منسلک کرکے یا کراکے اپنا جان چھڑاتاہے اور بلوچ گراونڈ کی سیاست اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ وہ اکثر اپنے لخت جگر اپنے خاندانوں کے بھی بچوں کو لاوارث چھوڑ کے بھاگ جاتے ہیں کہ جی یہ تو شاید کوئی دہشت گرد تھا کہ پولیس نے لیویز نے آرمی نے اسے مارا اسے اغواء کیا یا اسکو مارنے کی دھمکی وغیرہ دی گئی ہوگی۔

پولیس کی غنڈہ گردی تب سے شروع ہوا ہے جب سے انہوں نے آرمی سے ٹریننگ لی ہے یا ڈپٹی کمشنر نے انکو چھوٹ دی ہے۔ یہ تسلسل سے جاری حملے عام عوام پہ ہورہے ہیں پہلے کوئٹہ میں طلباء کو احتجاج کے دوران زدکوب کیا گیا، ڈاکٹروں کو احتجاج کے دوران مارا پیٹا اور اسکے بعد ان کے اس عمل سے کچھ خاص سیاسی مشکلات ریاست کو درپیش نہیں آئے تو سی ٹی ڈی کے نام پہ چھاپہ اور عام بلوچوں کو سرعام قتل شروع کی گئی، جس میں مستونگ کے پانچ نوجوان،پنجگور کے تین سبی کے دو اور دیگر جگہوں پہ بھی بہت سارے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پیش آئے ہیں۔

انہوں نے اس عمل کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیکر عام عوام کو چپ کرایا اور عوام بھی اب ایسے قتل پہ خاموش رہا کرتا ہے جو فورسز کی جانب سے کی گئی ہو۔ان سب واقعات اور ڈپٹی کمشنرز کا پولیس کو آرمی کی جگہ استعمال اور نوجوان نئے اہلکاروں کے ہاتھوں بندوق دیکر انکو بااختیار کرکے انکو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لایا جاتارہاہے۔

یہی تسلسل کل دوران تحریک لبیک کے مظاہرین پہ ڈائریکٹ فائرنگ کرنے سے باز نہ آئی اور مظاہرین پہ فائرنگ شروع کرنے سے پہلے ایس ایچ او نے ایک حافظ الاقرآن کو جو کہنے میں آرہا ہے کہ راہ گیر تھا روڈ کنارے اپنی موٹر سائکل کھڑی کرکے اس انتظار میں تھا کہ مظاہرہ کب ختم ہو، تاکہ وہ اپنے قریبی مدرسہ جاسکے۔

یہ الگ بات ہیکہ جس مدرسے کے طالبوں نے روڈ بلاک کیاتھا اور جو بچہ شہید ہوا ہے وہ بھی اسی مدرسے کا طالب تھا۔ مثلاً یہ بچہ احتجاج میں شامل بھی تھا تو بھی اسکو شوٹ کرنے کا حکم کس نے اس سپاہی یا ایس ایچ کو دی ہے ۔اور وہ کس قانون کے تحت شہریوں کو ایسے بیچ راہ پہ فائر کرسکتاہے۔ ہاں یہ بات بھی واضح ہوکہ اگر مظاہرین نے روڈ بلاک کیاہے، جس سے عام عوام تنگ ہیں اور یہ عمل غیر قانونی ہے ، گوکہ انکے نظریات جو بھی ہیں ان کے ساتھ بیٹھ کے انکو سمجھا کے بھی مسئلہ حل ہوسکتاتھااور اسکے علاوہ بھی کئی راہ تھے جن سے مسائل حل ہوسکتے تھے۔مگر ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے، یہ کھلم کھلا چھوٹ اور عوام کو تنگ کرنے کا طریقہ کار بہت پہلے کا ہے اور اسی کو ریاست استعمال کرکے عوام اور پولیس و لیویز کے درمیان تفرقہ پیدا کرانا چاہتاہے۔

پولیس و لیویز کے نئے رنگ روٹ اس بات سے قطعاً واقف ہی نہیں کہ انکی طاقت کو انکے اپنے ہی لوگوں کے خلاف چالاکی سے استعمال کیجانے کی سازشیں بہت پیچھے سے ہیں وہ تو مجبوری کی حالت میں ہی انتظامیہ کو منتخب کرتے ہیں انکو یہ تک معلوم نہیں کہ ریاست یہ نظریہ اجاگر کرنے کی کوشش میں ہے کہ جی اپنا پولیس لیویز ہمارا دشمن اور پاک آرمی ہمارا ہر حوالے سے رکھوالاہے۔

خضدار واقع ایک انسانیت سوز واقعہ ہے، جسکی جتنی مذمت کیجائے کم ہے۔ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں یہاں پہ ایک بات واضح ہوکہ بہت سارے واقعات ہماری سیاسی ماحول سے جڑے ہوتے ہیں آہستہ آہستہ ہم میں وائرس کی طرح پھیلتے رہتے ہیں ہمیں معلوم نہیں ہوتا مگر جب نقصان ہوتا ہے تو ہم اسکے پیچھے صرف اس فرد کو قصور وار سمجھتے ہیں جسکے ہاتھوں یہ ظلم ہوا ہے، مگر کوئی بھی طاقتور یا ظالم ماں کی پیٹ سے ظالم پیدا نہیں ہوتا اسکو باقاعدہ ظلم کرنےکی، لوگوں کو تنگ کرنے ناجائز اپنے اختیارات کا استعمال کرنے کی تبلیغ کیجاتی ہے۔

خضدار پولیس و لیویز کے ایسے بہت سارے واقعات ہیں جنکو ہر وقت عوام کے سامنے سے چھپایا گیا ہے یا ہمیشہ پولیس و لیویز کے چھاپے و فائرنگ کے بعد کی قتل کو کوئی اور نام دیا گیا ہے۔اور خضدار ضلع کے ساتھ ساتھ بہت سارے بلوچ علاقوں میں لیویز اور پولیس کے ایسے بے شمار واقعات ملینگے جنکو عوام نے خوف کی وجہ سے سامنے نہیں لایا ہے۔اور قتل ہونے والے سبکو عوام نے خود اپنی عدالت میں مجرم قرار دیکر لیویز یا پولیس کے ایسے کارناموں کو خود ہی خود ہوا دی ہے اور ریاستی کام اور بھی آسان ہواہیکہ لیویز پولیس کو عوام اپنا دشمن سمجھے اور آرمی ایف سی کو خیرخواہ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں