تحریک لبیک کا تحریک خلافت سے موازنہ – اسرار بلوچ

650

تحریک لبیک کا تحریک خلافت سے موازنہ

تحریر: اسرار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایک مفروضہ ہے کہ مسلمان صرف سیاسی طور پراس وقت متحرک ہوسکتے ہیں اگر مذہب اور مذہبی علامتوں کو استعمال کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی معاشروں میں مذہب اور کھیل اور فعال کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔

آج سے تقریبا ایک صدی پہلے یعنی بیسویں صدی کے دوسری دہائی میں کسی حد تک تحریک لبیک سے ملتا جلتا تحریک خلافت کا برصغیر پاک و ہند میں  آغاز ہوا. اس وقت برصغیر میں مسلمان خلافت عثمانیہ کو اپنےامام سے، نظریہ سے دیکھ کر  کسی بھی قسم کے قربانی دینے کیلئے تیار تھے. یہ برطانوی ہند کے مسلمانوں، شوکت علی ، مولانا محمد علی جوہر ، حکیم اجمل خان ،  کی سربراہی میں چلائی جانے والی ایک پین اسلام پسند سیاسی احتجاجی مہم تھی۔  اور ابوالکلام آزاد خلافت عثمانیہ کے بحالی کے لئے ، جو سنی مسلمانوں کا قائد سمجھا جاتا تھا ، کو ایک موثر سیاسی اتھارٹی سمجھا جاتا ہے۔ یہ سیوریس کے معاہدے کے ذریعے پہلی عالمی جنگ کے بعد خلیفہ اور سلطنت عثمانیہ پر عائد پابندیوں کے خلاف احتجاج تھا۔اس کے بعد بلقان کی جنگوں میں اور ترکی نے یورپ میں مشرقی تختہ ، اور آبنائے حصے کو کم کردیا تھا۔ برصغیر کے مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ مغربی طاقتیں اسلام کے خلاف جنگیں لڑ رہی ہیں۔ کیونکہ ان کے لئے ترک سلطان نے عالم اسلام کا خلیفہ ہونے کا دعوی کیا تھا.

جب ترکی نے اتحادی طاقتوں کے خلاف جرمنی کے شانہ بشانہ لڑنے کا انتخاب کیا .برصغیر میں مسلمانوں کی ہمدردیاں ترکی کے ساتھ تھیں۔اس کے جواب میں ترکی کو بھاری علاقائی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا. جب معاہدہ یورپ میں امن معاہدوں پر بات چیت کرنے اور سابقہ ​​دشمنوں کو سزا دینے کے لئے ہوا.

اسی عالمی سطح پر ہونے والے ترکی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو مدنظر رکھ برصغیر کے مسلمانوں نے باقاعدگی سے تحریک چلانے کا آغاز کیا. اس تحریک کے وقتی طور پر مقاصد اسلامی خلیفہ کے قبضہ کہہ جانے والے علاقوں کو محفوظ کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ہے. گوکہ اس تحریک کے پس منظر اور مقاصد صاف اور بالکل ظاہر تھیں, لیکن برصغیر میں یہ محض جذباتی بنیادی پر قاہم ہوا.اس کے تقریبا پانچ سال تک تھی.

یہ ایک حقیقت ہے کہ بر صغیر پاک و ہند سے خلافت عثمانیہ کے تحفظ میں تحریک کے رہنماؤں نے بے شمار مذہبی اور سیاسی علامات کے بھرپور استعمال کیا. مثال کے طور پر مسلمانوں کو مذہب کے نام پر متحرک کرنے کیلئے آتش گیر تقریریں ، اخبارات کے پرچے ، قائدین کے جذبات پر مبنی تقاریر ، اور فتویٰ جاری کرنا وغیرہ وغیرہ شامل تھیں. اس موقع کو دیکھ کر نہ صرف مسلمانوں بلکہ دوسرے ہندو ں نے بھر پور  سیاسی مقاصد کے استعمال کیا.سیاسی بیداری کی کمی مسلمانوں کے مابین سامراجی جذبات پیدا کرنے میں ناکام رہی۔ یہ بات واضح ہے کہ تعلیم یافتہ مسلمان بھی خلافت عثمانیہ  کی تاریخ سے بخوبی واقف نہیں تھے.

جب کے دوسری طرف آج سے تقریبا تقریبا ٹھیک چھ سال پہلے  دو ہزار پندرہ میں ایک ایسا ہی تحریک “تحر یک لبیک “کے نام سے وجود میں لائی گئی. ایک رپورٹ کے مطابق تحریک لبیک کےبانی خادم رضوی تھے.جس نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو گولیوں کے نشانہ بنا نے والے ممتاز تاثیر کے پھانسی کے فوری بعد تشکیل دیا. ایک مختصر سے عرصہ میں تحریک لبیک نے بریلوی مسلک کے درمیان ایک نمایاں مقام حاصل کیا. یتحریک نے وقتافوقتا مختلف اسلامی تحاریک چلائے.صرف مذہبی نہیں بلکہ سیاسی سطح پر بھی یہ کافی مقبولیت حاصل کرلی۔ مزید یہ ایک الیکشن کمیشن بطور ایک پارٹی رجسٹر ہے  اور باقاعدگی سے دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں بھی حصہ لیا.

یہ ایک حقیقت ہے کہ حال ہی فرانس نے انتہائی گستاخانہ خاکہ تشکیل دے دیا تھا. اس کو مد نظر رکھ کر تقریبا پورا عالم اسلام عالمی سطح پر احتجاج کر رہے ہیں. دوسرے اسلامی ممالک کے ساتھ پاکستان میں بھی اس گستاخانہ مواد کے شائع ہونے کے خلاف بھرپور احتجاج کررہی ہے. لیکن یہاں احتجاج کے رخ دوسرے مسلم ممالک سے بالکل ہی الگ ہیں.کیونکہ تحریک لبیک کے حکومت کے ساتھ طے شدہ معاہدہ کے سب سے پہلا اور ایم مطالبہ یہ ہے کہ فرانس کے ساتھ فوری طور پر تجارتی اور سفارتی تعلقات کو ختم کرنا چاہیئے.اور اس معاہدے کا ڈیڈ لائن بیس اپریل تھا.لیکن بیس اپریل سے پہلے پہلے تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کو گرفتار کیا گیا.

12 اپریل 2021 کو پارٹی کے رہنما سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد پاکستان بھر میں مظاہروں میں شدت آگئی۔ یہ 20 اپریل 2021 کو رضوی کے فارغ ہونے کے بعد ختم ہوا اور جب پارلیمنٹ میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدر ہونے کی بات کی جارہی تھی.احتجاج کے شدت اتنی زیادہ تھی کہ شاہراہیں بند کی گئیں, ایمبولینس بھی روک دیا گیا, آمد رفت بھی ممکن بنایا, اور بے شمار خانی ومالی نقصان پہنچانا بھی پڑا. جب کے دوسری طرف حالیہ دنوں قومی اسمبلی میں فرانس کے اس غیر مذہبی اور شدت پسند کو فروغ دینے کے عمل کے خلاف باقاعدہ قرار داد بھی پیش ہوا ہے. اس قراردادکے مطابق یہ ایون فرانسیسی میگزین چارلی ہینڈو کی طرف سے ناموس رسالت کی گستاخی اور توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی پرزور مذمت کرنا ہے. قرارداد ابھی تک منظور نہیں ہوا ہے۔

مختصر, تحریک لبیک اور تحریک کو موازنہ کرنے سے یہ حقیقت کھل کہ سامنے آتا ہیں, کہ ان دونوں مذہبی جماعتوں کے  احتجاجی اشکال کسی حد تک ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں.

یہ بھی ضاحت کرنا بھی انتہائی کامل ہے کہ عقیدہ توحید کے بعد ختم نبوت کا یقین ہم سب کا ایمان ہے. ختم نبوت کا یقین ارکان اسلام کا سب سے ایم حصہ ہے. یہ یقین لازم و ملزوم ہے. اس کے بغیر ایمان بھی نامکمل ہیں.اور اس کی حفاظت کرنا ہم سب پر فرض ہے. اسی ضمن میں  بےشمار قرانی آیات اور احادیث مبارکہ بیان فرمائے گئے ہیں.لیکن اس مقصد میں حصہ لینے کے لیے وقتی طور پر جذبات پر مبنی کسی بھی تحریک میں حصہ میں لینا بالکل ہی ضروری نہیں .


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں