بلوچ معیشت اور پاک ایران سرحد پر حائل رکاوٹیں
تحریر: امداد یعقوب
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ اپنے وسائل کے باوجود بھی درپدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، چاہے تعلیمی میدان میں ہوں، معاشی میدان میں یا بے روزگاری کی شکل میں کسی بھی میدان میں ہوں. جیساکہ ایران جنوب مغربی سرحد ہے لہذا یہ بلوچ تاجروں کے لئے ایک اہم مرکز ہے جس پر اکثریت بلوچ آبادی کی معیشت منحصر ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر تجارت پاک ایران سرحد سے گزرتی ہے۔ سرحدی تجارت کے بغیر مستحکم زندگی نہیں گزار سکتے اور خاص کر ایرانی سرحد مکران کے عوام کے لئے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے چونکہ ایک طویل عرصے سے باڑ کی تعمیر نے بہت سارے لوگوں کے کاروبار، معیشت، تجارت اور بچوں کی تعلیم کو بھی متاثر کیا ہے اور اب یہ رکاوٹیں ہمیشہ تنازعہ کا سبب بنے گا جس سے افراتفری بھی پیدا ہوگی۔
چونکہ سرحدی تجارتی ناکہ بندی سے کئی محاذوں پر صوبے کی بڑھتی ہوئی مشکلات میں اضافہ ہؤا ہے جس سے بلوچستان کے عوام کی معیشت اور سلامتی کو بھی مجروح کیا گیاہے۔
بلوچستان گورنمنٹ کی یہ ذمہ داری ہی نہیں بلکہ فرض بنتا ہے کے عوام کو جائز طریقے سے روزگار فراہم کرے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کریں۔
حکومت کو اس چیز کا احساس نہیں کہ پاک ایران بارڈر کی بندش نے تمام تاجروں میں احساس محرومی اور اضطراب کا ماحول پیدا کیا ہے۔ سرحد پر رہنے والے لوگ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں حکومت بلوچستان کو ان کی جانیں بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے.
خوشحال اور پر امن بلوچستان کی ترقی کے لئے حکومت کو باہمی تعلقات میں ایک طویل مدتی تجارتی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ لوگ انصاف، وقار، مساوات اور احترام کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں