بلوچی زبان، بلوچی اکیڈمی بی ایس او اور 2 مارچ – ریاض بلوچ

546

بلوچی زبان، بلوچی اکیڈمی بی ایس او اور 2 مارچ

تحریر: ریاض بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

زبان خیالات، نظریات، احساسات، جذبات کو لوگوں تک پہنچانے، تبادلہ خیال کرنے اور گفت و شنید کا ذریعہ ہوتی ہے۔ زبان کو کسی بھی قوم کا اصلی سرمایہ گردانا جاتا ہے اور اس کو قوم کے لیے روح کی مانند تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں تقریباَ سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ کچھ زبانیں اتنی پُراثر ہوتی ہیں کہ وہ دوسری زبانوں پر سبقت و فوقیت لے جاتی ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ ان پر محنت، ترویج، فروغ، اولیت، محبت و لگاؤ ہیں۔ کچھ زبانیں صرف بولی کی ہی حد تک ہیں۔ موجودہ گلوبلائزیشن کے دور میں ان سے لاتعلقی جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نہ ڈھلنے سے ان کے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔

زبان کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ اس کی اپنی ساخت شناخت کو محفوظ بنا کر ترقی و ترویج کے کام میں جدت لا کر حالاتِ حاضرہ کے مطابق جدید ٹیکنالوجی سے مدد لی جائے، اس کے تمام پہلوؤں پر سائنٹفک انداز میں مفید کام کیا جائے۔ نثر، نظم، افسانہ، محاورات، شعر و شاعری و دیگر پہلوؤں کو فروغ دیا جائے۔

بلوچی زبان جنوبی و وسطی ایشیا، ایران، افغانستان، پاکستان سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک میں اپنا وجود رکھتی ہے اور اس کے بولنے والے کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ البتہ علاقوں کے اپنے خدوخال، حالات اور دیگر زبانوں کی موجودگی کی وجہ سے زبان کے مختلف لہجے ہونا فطری عمل ہے۔

بلوچی زبان کے فروغ و لٹریچر کے لیے بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کے نام سے ادارہ یہ کام بخوبی کر رہا ہے۔ بلوچستان بھر میں نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت لائبریریوں کا جال بچھا رہے ہیں۔ بلوچی اکیڈمی کے اسٹاف سے ان کی انتظامیہ کتابوں کا تحفہ لینے کی درخواست کرتی ہے جو ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی بہترین شائع کردہ کتابیں ان کو میسر کرتے ہیں تاکہ دور دراز علاقوں میں موجود طالب علم اپنی زبان کے بارے میں آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی تاریخ، جغرافيہ، شخصيات، علمائے کرام، آباواجداد، سرزمین کے خدوخال، جدوجہد کے بارے میں پڑھ کر اپنی اعلیٰ تعلیم کے لیے مدد لے سکیں اور اپنی زبان پر دھیان دے کر اس سے مہر و محبت اور اپنائیت کا رشتہ قائم کر سکیں۔ بلوچی اکیڈمی وڈھ، گریشہ، گدر، سوراب، کوئٹہ، خضدار، حب چوکی، پنجگور و دیگر لائبریریوں کے لیے اپنی کتابیں دے چکی ہے جو کہ ان کی زینت و خوبصورتی اور علم بڑھانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔

2 مارچ بلوچ کلچر ڈے کے لیے بی ایس او اوتھل زون نے بک اسٹال لگا کر معاشرے میں کتب بینی و کتاب کلچر کو فروغ دینے کا پروگرام بنایا تاکہ اپنی زبانوں بلوچی، براہوئی، پشتو کو پروموٹ کیا جائے۔ علاقائی مصنفین اور اکیڈمیوں کی کتابوں کو لسبیلہ یونیورسٹی میں طالب علموں، عام قارئين سمیت اساتذہ کرام کی پہنچ کے لیے آسان بنایا جائے تو بلوچی اکیڈمی نے حسبِ روایت انتظامیہ کی حوصلہ افزائی کی، ان کو داد دی اور اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ ناصر صاحب نے بلوچی اکیڈمی کی طرف سے اپنی بہترین سے بہترین کتابیں پروگرام میں آنے والے اساتذہ، پروفیسرز، لیکچررز، طالب علموں کے لیے بک اسٹال کے بعد عقیدتاً اور تحفہۃٓ بلامعاوضہ تقسیم کیں تاکہ کتاب کلچر کو فروغ دیا جائے۔ لوگوں کو کتاب بینی کی جانب راغب کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان کے لٹریچر، کتابوں، تاریخ اور جدت کے بارے میں لوگوں کے علم میں وسعت لائی جائے۔

من تب جھوم اٹھا جب صرف بلوچی زبان کا نام سننے والے ملک بھر کے اساتذہ کرام، طالب علموں اور عام قارئين نے بلوچی اکیڈمی کی محنت، لٹریچر و زبان کے فروغ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات اور شائع کردہ جامعہ کتابوں کو دیکھتے اور داد و تعریف کے پل باندھتے رہے۔ بلوچی اکیڈمی کی طرف سے درجنوں کتابیں بی ایس او اوتھل زون انتظامیہ نے پروگرام میں آئے ہوئے مہمانانِ گرامی، پرو وی سی ڈاکٹر جلال فیض صاحب، پی آر او وحید گچکی صاحب، او آر آئی سی ڈائریکٹر ڈاکٹر اسلم بزدار صاحب، ڈی ایس اے ذاکر بلوچ صاحب، فیکلٹی ڈین خالد خان صاحب، لیکچرر نذیر صاحب سمیت دیگر پروفیسرز، لیکچررز و طالب علموں میں تحفتاً تقسیم کر دیں۔

ملک کے بڑے بڑے ایونٹس سمیت سیمینارز، پروگرامز اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم اپنی زبان کو بہترین طریقے سے فروغ دے کر خدمت و عام کر سکتے ہیں۔ اوپری سطح سے اس کو نچلی سطح تک لا کر ذریعہ تعلیم بنا سکتے ہیں۔ کیوں کہ تعلیم مادری زبانوں میں دی جائے تو اس کے دُور رس مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں اور اگر تاریخ پر نظر دوڑائیں تو جن قوموں نے مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنایا وہ ترقی کرتی چلی گئی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں