ایران اور چین کے درمیان حالیہ ہفتے ہونے والے معاہدے کو عالمی سطح پر بڑی سنجیدگی کے طور لیا گیا، اور اس معاہدے کے متعلق سوالات بھی کھڑے ہوئے کہ معاہدے کی تفصیلات کیونکر سامنے نہیں لائی گئی۔
خود ایران میں ناقدین اسے اپنی خودمختاری بیچنے سے تشببیہ دے رہے ہیں تو اس کے حق میں اٹھنے والی آآوازیں اسے امریکہ کی سیاسی موت قرار دے رہے،۔
ایرانی وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ یہ کوئی بین الاقوامی معاہدہ یا کنونشن نہیں جسے پبلک کیا جائے۔
بھارتی تجزیہ کاروں کے نزدیک بھارت کے لئے چین اور ایران معاہدے کو مسترد کرنے کے خطرات مہنگے ثابت ہوسکتے ہیں۔ گارجین لکھتا ہے کہ ایران میں ناقدین وزراء پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ 25سالہ شراکت داری کے معاہدے کی تفصیلات سامنے لائی جائیں اور یہ الزامات لگائے جا رہے کہ ایران نے اپنی خودمختاری بیچ دی ہے۔
ایران کے حکومتی ترجمان نے کہا کہ یہ معاہدہ پروپیگنڈہ جنگ کا نشانہ بن رہا ہے،اس کو شائع کرنے پر کوئی قانونی ذمہ داری نہیں، یہ معاہدہ انٹرنیشنل ٹریٹی یا ایگریمنٹ نہیں اور اس کی قانونی تشریحات کے لئے پارلیمنٹ کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے اشارہ دیا کہ اسے پبلک کرنے میں چین رکاوٹ ہے۔ اس سے قبل ڈرافٹ لیک ہوگیا تھا، ایرانی پارلیمنٹ کا اصرار ہے معاہدے پر پیش رفت سے قبل اس کی جانچ کی جائے۔
معاہدے کو ایران پر مغرب کی طرف سے نہ ختم ہونے والے راستے کے متبادل دیکھا جا رہا ہے۔ایرانی قانون ساز اور فارن پالیسی کمیشن کے سربراہ کا کہنا ہے ایران نے روس کے ساتھ بھی اس سے ملتے معاہدے پر دستخط کی کوشش کی تھی ، کئی ایرانی تجزیہ کاروں نے اس معاہدے کو امریکاکے لئے ایک سیاسی تباہی قرار دیا ہے۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق دونوں ممالک نے معاہدے کے مندرجات دنیا کے سامنے نہیں رکھے، گذشتہ سال اس معاہدے کے18 صفحاتی ڈرافٹ کو حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے اخبار نے لکھا کہ یہ چار سو ارب ڈالر کا معاہدہ ہے جو آئندہ پچیس برسوں میں کئی سیکٹر کیلئے ہے۔
اس کے بدلے میں چین رعایت سے باقاعدگی سے تیل لے گا۔ اس میں ملٹری تعاون، مشترکا مشقیں، تحقیق اور اسلحے کی تیار اور انٹیلی جنس اشتراک شامل ہے۔
بلو مبرگ لکھتا ہے کہ تہران میں فتح کے ساتھ اعلان کردہ اس معاہدے کو مغرب کے کچھ حلقوں میں خطرے کی گھنٹی کے طور پرلیا گیا جہاں مختلف وضاحتیں کی جارہی ہے کہ اس کو امریکی پابندیوں کی ایرانی خلاف ورزی، اورمشرق وسطی میں امریکی اثر ورسوخ کی کم کرنا ہے۔
اس معاہدے کی اہمیت کے بارے لکھاکہ ایران میں موسم گرمامیں عام انتخابات ہو نے جارہے ہیں ایسے میں صدر حسن روحانی کی انتظامیہ کے ساتھ معاہدہ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہوگا۔
ایران ڈیلی نے وزیرخارجہ محمدجواد ظریف کے حوالے سے لکھا کہ 25سالہ تعاون کے معاہدے کو مشترکا مفادات کے حصول کے باہمی احترام اور جیت کے نقطہ نظر سے تیار کیا گیا۔
انہوں نے معاہدے کے اہداف تو بتائے لیکن تفصیلات جاری نہیں کی۔ اس معاہدے کی تیاری میں پانچ سال لگے، جس نے امریکا کے دو حریفوں کا اکھٹا کردیا، انہوں نے معاہدے کے بارے غلط تاثر کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ دستاویز کوئی معاہدہ یا کنونشن نہیں، اس سے دونوں فریقوں کیلئے کوئی ذمہ داری نہیں۔ کسی فوجی طاقت کی تعیناتی یا کسی بیس کو حوالے کرنے کا ذکر اس دستاویز میں نہیں اور نہ یہ کسی تیسرے فریق کے خلاف ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق نیا چین ایران معاہدہ بھارت کے لئے درد سر ہے۔ یہ صرف ایک اور بین الاقوامی معاہدہ نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کے لئے اچھی خبر نہیں ہے۔ بھارت کو خطے کے ممالک کے ساتھ اپنی پالیسی کا از سرنو جائزہ لینا چاہیے۔
چوبیس مارچ کو تہران میں چین نے ایران کے ساتھ 400 بلین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے، جس سے دو ریاستوں کے مابین مضبوط بنانے کی بنیاد رکھی گئی۔یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ ایران پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے بہت کم اشارے دکھا رہا ہے۔
جو بائیڈن انتظامیہ سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو الٹ دے گا اور جوہری پروگرام جیسے بنیادی معاملات پر سجھوتہ کیے بغیرامریکا ایران کے متعلق مفاہمتی انداز اپنائے گا۔
بھارت نے ایران پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے اپنے تحفظات سے بار بار آگاہ کیا ہے۔ اسٹریٹجک لحاظ سے بندر عباس بندرگاہ بھارت کیلئے اہم ہے جو ہندوستان کے لئے زیادہ سے زیادہ کارگو سنبھالتا ہے، اسے ہندوستانی کاروبار کیلئے بند کردیا گیا، جس سے تجارتی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔
ایران ہندوستان کو تیسرا سب سے بڑا توانائی فراہم کرنے والا ملک سمجھا جاتا ہے اور پابندیوں نے ان سپلائیوں کو روک دیا ہے جس کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں اضافے اور تجارت کے توازن رستے سے ہٹ گیا۔
دو ہزار اٹھارہ میں ایران کے جوہری معاہدے سے امامریکہ ے نکلنے کے بعد ایرانی درآمدات پر مکمل پابندی لگادی جب کہ بھارت سمیت صرف آٹھ ممالک کو صرف چھ ماہ کی چھوٹ دی گئی۔
چھوٹ مئی 2019 میں ختم ہوگئی۔ اگرچہ پابندیوں کے خاتمے سے قبل، بھارت کی تیل کی درآمد میں ایران کا حصہ دس فیصد تھاجب کہ بھارت کو اسی فی صد ضرورت تھی ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے دیگر عوامل ہیں جو نئی دہلی کے اسٹریٹجک اور سیکورٹی مفادات کے منافی ہیں۔
ایران نے بھارت کو 60 روزہ تجارتی کریڈٹ، مال برداری اور انشورنس چارجز پر منافع بخش چھوٹ اور روپے کی ادائیگی کی سہولیات دیں۔ امکان ہے کہ بھارت بہت جلد چابہار بندرگاہ میں آپریشن شروع کردے گا ۔ایران وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کے لئے ہندوستان کا داخلی پوائنٹ ہو گا ۔
بھارت کو چار ملکی گیس پائپ لائن منصوبہ ٹاپی(ترکمانستان، افغانستان، پاکستان،انڈیا)پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہونا ہوگالیکن یہ سب ممکن ہے اگر نئی دہلی امریکہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائے کہ ایران کودور رکھنا بھارت کی علاقائی سلامتی کے خلاف ہوگی۔
چین نے اپنا کثیر الجہتی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ اب ایران تک بڑھارہا ہے۔ اس سے نہ صرف بیجنگ کے ایران میں قدم جمیں گے بلکہ چین کو خطے میں فیصلہ کن بھی بنائے گا۔
یہ معاہدہ ایک طرح1979 میں چین اور ایران کے مابین ماضی کی شراکت داری پر ایک مہر ہے، ایران چین معاہدہ وائٹ ہاؤس کیلئے ایک چیلنج ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نئے پالیسی ساز اس کے ساتھ کیسے نپٹتے ہیں، بھارت کے لئے چین اور ایران معاہدے کو مسترد کرنے کے خطرات مہنگے ثابت ہوسکتے ہیں۔