ان ماؤں کو ان کی بیٹیاں واپس کرو
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
پیر ایوب جان سرہندی کا خادمِ خاص کمدار امر جلیل کو قتل کرنے کی کھلی دھمکی دے رہا ہے۔اس دھمکی میں وہ انعام مقرر بھی کر رہا ہے،آیتیں بھی پڑھ رہا ہے،جوش خطابت میں بھی ہے،اپنی مذہبی گدی کا ذکر بھی کر رہا ہے اور اس کے ارد گرد سب وہ بچے کھڑے ہیں جو کچھ نہیں جانتے کہ مذہب کیا ہے؟اسلام کیا ہے؟ دنیا کے اور مذاہب کیا ہیں؟ اسلام میں اور دنیا کے اور مذاہب میں کیا فرق ہے؟ وہ تو بس اس جوشیلے کمدار کی باتوں پر جھوم رہے ہیں،ہاتھ بلند کر رہے ہیں اور وہ ان دو نشوں میں غرق ہیں کہ
پہلا:وہ مسلمان ہیں
دوسرا:وہ اہلسنت ہیں
وہ نوجوان نہ تو اس سے آگے جانتے ہیں اور نہ ہی انہیں معلوم ہے
پر سندھ کا شعور اس دھمکی سے آگے جانتا بھی ہے اور اس معلوم بھی ہے کہ یہ میر پور خاص کے سرہندیوں کا ٹھگ ٹولہ اور ڈھرکی میں میاں مٹھو نامی ٹھگ کا ٹولہ کون ہیں؟کہاں سے آئے ہیں؟
شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے کسی دانشور نے یہ ادبی الفاظ تخلیق کیے ہیں کہ
”کون ہیں یہ لوگ
کہاں سے آئے ہیں یہ لوگ؟“
سندھ ان پیروں کو جانتا ہے،سندھ کو معلوم ہے کہ ان کو کون کہاں سے کنٹرو ل کرتا ہے سندھ کو معلوم ہے کہ یہ کس کے بغل کے بچے ہیں اور سندھ یہ بھی جانتا ہے کہ ان کے بغلوں میں کیا ہے،ان پیروں کا خمیر سندھ کی مٹی سے نہیں اُٹھا، یہ فراڈ ہیں، یہ رانگ نمبر ہیں، یہ سندھ کے سینے پر اک بارِ گراں ہیں، یہ اسلام کی خدمت نہیں کر رہے یہ اسلام کے منہ پر کالک مل رہے ہیں، یہ اپنے عملوں اور کرموں سے اسلام کے چہرے کو مسخ کر رہے ہیں،اسلام میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں اور ان کا اسلام ہی جبر سے شروع ہوتا ہے۔
پیر سرہندی اور میاں مٹھو ان سیکڑوں بدمعاشوں کو اپنے پاس پناہ میں رکھا ہواہے جو سندھ بھر سے ہندوؤں کی جوان بچیوں کو اغوا کرتے ہیں اور پیر سرہندی اور میاں مٹھو کے پلوں میں لاکر انہیں دینے حنیف میں داخل کرتے ہیں اب تک جبر،گنڈہ گردی،ملا گیریت کے زرئعے سیکڑوں ہندو لڑکیوں کو دائر اسلام میں داخل کر چکے ہیں ایسے بے تحاشہ وڈیوز سوشل میڈیا پر وائر ہو چکی ہیں جن میں معصوم سے خوبصورت ہندو لڑکیاں سہمی سہمی ڈری ڈری جرگہ نماں لوگوں کے درمیان بیٹھی ہیں اور میاں مٹھو یا پیر سرہندی انہیں انیتا سے فاطمہ اور لچھمی سے عائیشہ بنا رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ ایسی خوفزدہ ہو تی ہیں جیسے شکار کی ہوئی ہرنی۔
وہ سہمی سہمی،ڈری ڈری ہرنی ہی تو ہو تی ہیں جنہیں اسلام کے نام پر شکار کیا ہوتا ہے وہ کیا کریں کہاں جائیں کس سے کہیں کیوں کہ سندھ ان کے لیے اب جائے پناہ نہیں رہا وہ کیسے بھاگیں کہاں جائیں اس لیے اپنے سروں کو نیچے کیے سروں پر دوپٹہ لیے اس ہجوم میں تماشہ بنی ہو تی ہیں جس تماشے میں کچھ کمدار اصلاحی کلام پڑھتے جا تے ہیں،کچھ کمدار پیر کے ہاتھ چومتے جا تے ہیں کچھ کمدار اپنی میلی جیبوں سے کچھ نوٹ نکالے مرشد پر گھور رہے ہو تے ہیں اور ڈری ہوئی ہرنیاں ہو تی ہیں جو بہت کچھ کہنا چاہتی ہیں پر کچھ نہیں کہہ سکتیں کیوں کہ ان کے ارد فرد اسلام کا شور اور مبارک باد کا طوفان ہوتا ہے۔
اور بہت دور وہ مائیں دیوانیاں ہو جا تی ہیں۔جن کی جوان ہو تی بچیوں کو اسلام کے نام پر ان کے کچے گھروں سے اُٹھالیا جاتا ہے،جو مائیں انہیں دودھ پیتے بچے دے کر گھروں سے دور سوکھے کنوؤں سے پانی بھرنے جا تی ہیں جن کے گھر واپس لوٹتے لوٹتے یہ بات پھیل جاتی ہے کہ بندوق والے آئے تھے اور شانتی کو اپنے ساتھ اُٹھا لے گئے،جیپ میں آئے تھے اور وجنتی کو اپنے ساتھ لے گئے بہت سے لوگ بہت سی گاڑیوں پر آئے تھے اور شالا کو اپنے ساتھ لے گئے وہ موٹر سائیکل پر آئے تھے اور وشی کو لے گئے جب دور سوکھے کنوؤں کے پیٹ سے لایا پانی ان ماؤں کے ہاتھوں سے چھوٹ جاتا ہے اور وہ ریت اس گرتے پانی کو بہت جلد جذب کر لیتی ہے،پر ان ماؤں کے آنسو ان کا چولہ جذب نہیں کرتا،ان ماؤں کے آنسوؤں کو ان ماؤں کے آستین جذب نہیں کرتے،چولہ کیا آستین کیا پر وہ ریت بھی ان ماؤں کے آنسوؤں کو جذب کرنے سے انکار کر دیتی ہے!
وہ مائیں جن کے کچے گھر ہو تے ہیں۔جن کو پو ری روٹی بھی میسر نہیں ہو تی،جن کے شریر بیمار ہو تے ہیں۔کن کی چھاتیوں میں دودھ نہیں ہوتا،جن کے بیمار بچوں بہت جلد ریت میں دفن ہو جا تے ہیں،جن بیمار بچوں کو کیش کرا کے تھر اور مٹھی کے بنئے ان پیروں اور اعلیٰ عملداروں کی دعوت کرتے ہیں ، وہ مائیں بعد از انیتا کے وجنتی کے شالہ کے اک خواب بن جا تی ہے اک درد بن جا تی ہے۔
پھر وہ مائیں آتے جا تے لوگوں سے یہی سوال کرتی ہیں کہ ان پیروں،میروں گدی نشینوں سے ان کے بچیوں کو رہائی دلوائی جائے اور وہ بدمعاش ان بچیوں کے گلے میں اسلام کا طوق ڈال کر انہیں اسلام میں داخل کر لیتے ہیں
کیا بن ماؤں کے دکھی ماؤں کے التجا بن جانے والی ماؤں کی وہ بچیاں اسلام میں داخل ہوسکتی ہین جن کے پیچھے وہ مائیں مسافر بن گئی ہیں اور آئے دن خدا کی طرف ہاتھ بلند کر کے کہتی ہیں کہ
”چھوڑ جنت کے واعدے کو
ابھی تو زندگی جہنم نہ کر
عاشی کو لوٹا دے
وہ بہت چھوٹی ہے رات اور بارش سے ڈر جا تی ہے!“
سندھ تو میاں مٹھو اور پیر ایوب جان سرہندی سے اپنی ان بیٹیوں کا حساب مانگ رہا ہے
جو اسلام کے نام پر ان ماؤں سے چھین لی گئی ہیں
جو بیٹیاں ان ماؤں کے لیے
سندور جیسی تھیں
منگل سوتر جیسی تھیں
میاں مٹھو اور ایوب جان سرہندی امر جلیل بھی تو تم سے سالوں سے یہی کہہ رہا تھا نہ کہ
ان ماؤں کو ان کی بیٹیاں واپس کرو بدمعاشو
اور آج سندھ بھی تم سے یہی کہہ رہا ہے
ان ماؤں کو ان کی بیٹیاں واپس کرو
بدمعاشو!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔