امیر بلوچستان کے غریب بلوچ
تحریر: زرینہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے بد قسمتی سے، بلوچستان قدرتی معدنیات سے بھرا پڑا ہے لیکن بد قسمتی سے یہ سب چیزیں ہمارے بلوچ بھائیوں کی زندگیوں کے دشمن بن چکے ہیں، ان کی چاہ نے سب لوگوں کو ہمارا دشمن بنا دیا ہے۔
بلوچستان کے نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار ہیں، انہیں کوئی بھی سرکاری پوسٹ نہیں ملتا، پوسٹ اُنہیں ملتا ہے جو حکمرانوں کے چمچمے ہوتے یا اُنہیں پیسے دے کر پوسٹ خرید لیتے ہیں۔
امیر بلوچستان کے غریب بلوچ جو دو وقت کی روٹی کیلۓ بارڈر پر پھنسے ہوۓ نہ اُنکے پاس کھانے کیلے نہ کھانا ہیں، نہ پینے کیلے پانی جو اس وقت بہت سے مسائل سے دوچار ہے، یہ لوگ جو بارڈر پر موجود ہے صرف عزت اور حلال کی روٹی کمانے کیلۓ لیکن بارڈر کی بندش کی وجہ سے وہاں پر پھنس گۓ ہیں ۔
بلوچستان میں ہر ایک نوجوان پڑھا لکھا ہونے کے باوجود بے روزگار ہے۔ سرکار اُنکو نوکریاں نہیں دیتا لیکن ہمارے بھائیوں نے پر بھی ہار نہیں مانا اتنے سارے معدنیات اور وسائل کے مالک اور پڑھا لیکھا ہونے کے باوجود تیل والے گاڑیوں کے ڈرائیور بن گئے کیونکہ اُنہیں رزِق حلال چاہیئے، کسی کے سامنے ہاتھ پھلانے سے بہتر ہے کہ وہ محنت مزدوری کر لے لیکن کچھ تنگ نظر لوگوں کو یہ بات برداشت نہیں ہوتی کہ بلوچستان کے عوام سکون سے دو وقت کی روٹی کھائیں، اسلے باڈر پر بندش لگا دی گئی کہ سب بے روزگار ہوجائیں۔
اس با برکت مہینے میں سب نے روزہ رکھا ہے افطاری کے وقت دسترخوانوں پر مختلف اقسام کے کھانے اور پھل موجود ہیں، لیکن ہمارے بھائیوں کے گھر والے ایسے امید لگاۓ ہوۓ کہ کب اُنکے پیارے خیریت سے واپس آجائیں۔
ہمارے حکمرانوں کو عوام کی یاد تب آتی جب اُنکو الیکشن کے وقت وؤٹ چاہیئے ہوتا الیکشن جیتنے کے بعد حُکمران بھول جاتے ہیں کہ عوام زندہ ہیں یا مر گئے اُنہیں فرق نہیں پڑتا ۔
بلوچستان کے ساحل اور وسائل سب اچھے حکمرانوں کیلے لیکن بلوچستان کے عوام انکو پتہ نہیں کیوں پسند نہیں، کشمیر کا درد اور تکلیف ریاست مدینے والوں کو نظر آتا ہے لیکن بلوچستان کا نہیں، کشمیر پر ظلم دکھائی دیتا ہے لیکن جو ظلم وہ خود کر رہا ہے وہ اُسے دیکھائی نہیں دیتا ہے۔
پورا پاکستان خود بلوچستان کے وسائل پر چل رہا ہے لیکن ہمیں وسائل نہیں چاہیئے، ہماری بس یہی التجاء ہے کہ ہمارے بلوچ بھائیوں کو عزت کی دو وقت کی روٹی کمانے دے ریاست مدینے سے کسی بھی چیز کی طلب نہیں ہمیں نہ اُمید رکھتے ہیں ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کرکے کیا مل رہا ہے۔
بارڈر اس مبارک مہینے میں کربلہ بن چُکا ہے اور آج کے دور کے یزید کوئی کافر نہیں ہے بلکہ ہمارے خود کے ریاست مدینے والے ہیں۔ بلوچوں کو ہر ایک چیز کیلے مزاحمت کرنا پڑ رہا ہے۔
اگر یہ مسئلہ کسی اور صوبے کا ہوتا ہمارے نام نہاد حکمران سب مزاحمت کرتے، بیان بازی کرتے لیکن بد قسمتی سے یہ مسئلہ بلوچستان کا ہے تو سب کو سانپ سُنگھ گیا سب خاموش ہیں اور اندھے بھی بن گئے ۔
ایک بات یاد کر لے ریاست مدینے والے بے بس بلوچوں کی آہ عرش تک جائیگی، قیامت کے روز کیا جواب دوگے تم سب خُدا کو، اتنے لوگوں کو بے روزگار بنا کر رکھ دیا ہے ۔
شرم ہمارے حکمرانوں کو آتی نہیں جو خود کو ریاست مدینے والے کو دعوے دار کہتے ہیں اور حرکتیں انکی یزیدوں سے بدتر ہے انکی حرکتیں دیکھ کر شیطان بھی توبہ کرلے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں