بلوچستان کے ضلع ہرنائی کے کوئلہ کان حادثے میں جان بحق سات کانکنوں کی لاشیں سترہ گھنٹوں بعد نکال لی گئی۔
حکام کے مطابق ریسکیو آپریشن مکمل ہو گیا ہے اور تمام سات لاشیں نکال لی گئی ہیں۔
حالیہ دنوں میں بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں پیش آنے والا یہ تیسرا بڑا حادثہ ہے۔ گژشتہ ایک ماہ کے دوران بلوچستان میں حادثات کا شکار ہوکر مرنے والے کان کنوں کی تعداد 22 تک پہنچ چکی ہے۔
ڈپٹی کمشنر ہرنائی سہیل انور ہاشمی کے مطابق تازہ حادثہ پیر کی صبح ہرنائی سے تقریباً 45 کلومیٹر دور طورغر کے کول مائنز ایریا میں پیش آیا جہاں کان منہدم ہونے اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے بارہ سو سے چودہ سو فٹ کی گہرائی میں سات کان کن پھنس گئے۔
ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ علاقے میں موبائل نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے انتظامیہ اور ریسکیو ٹیموں کو حادثے کی اطلاع تاخیر سے ملی۔
چیف انسپکٹر مائنز بلوچستان شفقت فیاض نے بتایا کہ کان کے اندر پہلے پانچ کان کن پھنسے جنہیں نکالنے کے لیے ان کے دو ساتھی کان کن اندر اترے تو وہ بھی حادثے کا شکار ہوئے اور گیس سے دم گھٹنے کے باعث ہلاک ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریسکیو آپریشن پندرہ گھنٹے سے زائد جاری رہا۔ تاہم بد قسمتی سے پھنسے ہوئے کان کنوں میں سے کسی کو زندہ نہیں نکالا جاسکا۔ تمام سات کان کنوں کی لاشیں منگل کی علی الصبح نکال کر ہسپتال منتقل کردی گئیں۔
مرنے والوں میں تین کا تعلق افغانستان اور باقی بلوچستان کے ضلع پشین و ملحقہ علاقوں کے مقامی باشندے تھے۔
چیف انسپکٹر مائنز نے بتایا کہ متاثرہ کوئلہ کان کا ایک حصہ دو دن قبل منہدم ہوگیا تھا جس کے بعد سے کان کے اندر گیس کی وجہ سے آگ لگی ہوئی تھی۔ متاثرہ کان کن آگ بجھانے کے لیے کان میں اترے تھے جہاں زیادہ مقدار میں گیس کی موجودگی کی وجہ سے ان کا دم گھٹ گیا۔
حفاطتی قوانین پر عمل نہ ہونے اور حفاظتی انتظامات کے نہ ہونے سے بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں ہر سال سینکڑوں کان کن حادثات کا شکار ہوکر ہلاک یا عمر بھر کےلیے معذور ہوجاتے ہیں۔
خیال رہے 11 مارچ کو کوئٹہ کے نواح میں مارواڑ میں کوئلہ کان میں گیس کے باعث دم گھٹنے سے چھ کان کن ہلاک جبکہ 17فروری کو ہرنائی ہی کے علاقے شاہرگ میں گیس دھماکے سے چار کان کنوں کی موت ہوئی تھی۔