گروپ سائکلاجی کیا ہے؟ اور اس سے کیسے بچا جائے؟ – معشوق قمبرانی

460

گروپ سائکلاجی کیا ہے؟ اور اس سے کیسے بچا جائے؟

تحریر: معشوق قمبرانی

دی بلوچستان پوسٹ

علم نفسیات کے ابے سگمنڈ فرائڈ نے اپنے کتاب ’گروپ سائکلاجی اینڈ اینالائسز آف دی ایگو‘ میں فرینج سائلاکالوجیکل فلاسافر چارلس لیبان کے جگ مشہور کتاب ’دی کراؤڈ؛ اسٹڈی آف پاپولر مائینڈ‘ میں گروپ سائکلاجی پر دیئے گئے نظریات پر زبردست تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’لیبان کے نزدیک ایک فرد جب کسی گروپ کا حصہ بنتا ہے تو وہ اپنی تمام تر ذاتی و انفرادی خیالات،نظریات اور تخلیقی صلاحیتوں کو اس گروپ کی مشترکہ طور پر سوچنے کے انداز کے سامنے سرینڈر کرتا ہے۔اس طرح وہ اپنی انفرادی جذبات، خیالات،زاویہء سوچ و عمل کے دائرے سے نکل کر ایک گروپ کے مشترکہ سوچ و عمل کے دائرے میں سَما جاتا ہے۔گویا کہ وہ گروپ کسی سماجی،نسلی،مذہبی،انتہاپسندی یا دیگر کسی اور مقصد کے لیئے اپنا ایک گروہی خیال و نظریہ ہی کیوں نا رکھتا ہو یا اس مقصد کے لیئے کام کر رہا ہو۔‘

لیبان اس گروپ سائکلاجی کو ’کراؤڈ سائکلاجی‘ یا پاپولر مائینڈ سائکلاجی کا نام دیتا ہے۔ فرائڈ لیبان کے ’گروپ سائکلاجی‘ کے اس نظرئے پر کچھ بنیادی نوئیت کے سوال اٹھاتا ہے کہ لیبان نے گروپ سائکلاجی یا پاپولر سوشل سائکلاجی کا حصہ بننے کے بعد ایک فرد کی علمی،سائنسی،تربیتی و انفرادی تخلیقی صلاحیتوں کو قربان کرکے اس گروپ کی ایک مخصوص دائرہ کار کی سوچ کے اندر سوچنے کے طریقے کو گروہی مفادات کی حاصلات کا ذریعہ بتایا ہے۔ پھر وہ گروہی نفسیات بھیڑ بکریوں یا ریوڑ کی نفسیات کی جیسی ہی کیوں نا ہو۔ جس میں تبدیلی و تجدیدی خیالات و نظریات کو ختم کرکے اسی گروپ کے مائینڈ سیٹ کو آگے بڑھانا ہو،جس سے سماج میں نئی تبدیلی کے خیال کا گروپ سائکلاجی کے ذریعے رستہ روک کردینا ہو، پھر چاہے وہ گروپ اپنے کسی بھی گروہی پیٹی مفاد کے لیئے سوچ رہا ہو یا کام کر رہا ہو۔

اس گروپ سائکلاجی کاشکار بننے والے افراد کی حالت بالکل ایسی ہی ہو، جیسے کسی نے اس کو ’ہیپوٹانائز‘ کیا ہو اور اسے ایک آٹومین کی طرح اپنے ان دماغی و تخلیقی صلاحیت کو ختم کرکے اپنے گروہی انا و مفادات کے لیئے تیار کر رہا ہو! جس گروپ سائکلاجی کو لیبان ایک متاثر کرنے والے لیڈر کے زیرِاثر دے دیتا ہے،جو کسی بھی تنقیدی یا نئی تخلیقی راہ سے بلکل پیرالائز ہے۔جس گروپ سائکلاجی کا’پرائیمیٹو (اصلی) عام عوام کی اصل سوچ یاکسی زمینی حقیقت سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں ہے؟ اس پر بھی لیبان لاجواب ہے۔

ایک قسم کی گروہی نفسیات کسی قوم، وطن یا عام انسانوں کے مشترکہ مفادات کی حاصلات کے لیئے اپنی گروہی سوچ کا کیا زاویہ رکھتا ہے کہ جس سے وہ گروہی نفسیات کے دائرے سے نکل کر کوئی ’قومی سوچ‘ یا عالمی انسانی شعور کے پئمانے پر تسلیم کی جا سکے؟ لیبان کے پاس اس کا بھی کوئی لاجیکل جواب نہیں ہے۔

سیاست و انقلابی جدوجہد ایسی فیلڈز ہیں جن کا سماجی و قومی نفسیات کے علم سے گہرا تعلق ہے۔جو بھی سیاست یا مزاحمت اپنی قوم اور لوگوں کی ذہنی نفسیاتی ساخت کے خلاف کی جا رہی ہو یا جس بھی نظرئے، تنظیم یا فکر کے پاس اپنے لوگو ں کو اپنی جدوجہد میں شامل کرنے، اپنا حمایتی و ہمدرد بنانے کی موٹیویشن نہیں ہے، تو چاہے کتنی بھی گروہی پرچار یا کوششیں کرلیں جائیں لیکن نتیجے میں ان کو ناکامی ہی ملنی ہے۔

کسی بھی جدوجہد کی ناکامی و کامیابی کا گہرا تعلق ان تین بنیادی فیکٹرز پر مبنی ہے؛
۱۔ تضاد کی شدت ، ۲۔تنظیمی طاقت ، ۳۔ زمینی حقائق
جہاں پر تضاد جیسا ہوگا، نظریہ و فلسفہ ایسا ہی کام کرے گا۔
دوسرا فیکٹر یہ ہے کہ اگر تضاد موجود ہے اور نظریہ بھی موجود ہے،لیکن اس تضاد سے نپٹنے کے لیئے تحریک موجود نہیں ہے یا تحریک موجود ہے لیکن اس تحریک کو منظم طریقے سے چلانے کے لیئے کوئی مضبوط تنظیم موجود نہیں ہے، تو بھی کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔
اگرچہ یہ دونوں چیزیں موجود ہیں لیکن زمینی، علائقائی و عالمی حالات (کردستان کی ریفرینڈم کی طرح) حق میں نہیں ہیں، تو بھی و جدوجہد اپنی کامیابی تک پہنچنے میں وقت لگائے گی۔ ان سب چیزوں کے صحیح طریقے سے سمجھنے، چلانے اور وقت و حالات کے مناسبت سے دُرست حکمت عملیوں کی حرفت سے آگے بڑھنے کا ادراک ہونے کو ہی پولیٹیکل سائکلاجی کہا جاتا ہے۔ جس کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ’گروپ سائکلاجی یا گروپ شاؤنزم‘ کا شکار ہوجانے کا رویہ ہے۔

دنیا کے کامیاب انقلابی کرداروں میں لینن، ماؤزیے تنگ اور لی شاؤچی نے اپنی تحریروں میں اس موضوع تفصیلی بحث کیا ہے۔

لینن نے اپنی کتاب ’قومیت کا سوال‘ میں تضاد کے متعلق لکھتے ہوئے کہا ہے کہ ’جب تک کوئی بھی انقلابی جدوجہد اپنے زمینی حقائق سے ہمکنار ہوکر نہیں چلے گی، تب تک اس کی کامیابی ناممکن ہے۔ جہاں پر قومی تضادشدت سے موجود ہے، وہاں پر طبقاتی سوال سے پہلے قومی سوال کو حل کرنا ہوگا‘۔ماؤزیتنگ نے اپنے کتاب ’تضاد بابت‘ میں لکھا ہے کہ’چین کا انقلاب مضظ چینی سماج کے ہے زمینی حالات کے مطابق عمل میں آیا ہے، لازم نہیں کہ ہر جگہ انقلاب اسی طرز سے آئے۔دنیا کے ہر خطے کے اپنے اپنے تضادات و معروضی حالات ہوتے ہیں۔اس لیئے جہاں پر جیسے زمینی حالات و حقائق ہیں، وہاں پر جدوجہد کا طرزِ عمل و حکمت عملی اس طرح کی اختیار کرنی پڑے گی۔

’پارٹی اندر جدوجہد‘ کے شاندار لیکچر میں لی شاؤچی نے بھی اسی زمینی حالات کے مطابق گروہی نفسیات کا مقابلہ کرنے کے لیئے لکھتے ہوئے کہا ہے کہ ’جتنی جدوجہد آپ کو پارٹی کے دشمن کے خلاف ہر قسم کے سیاسی،مزاحمتی و نفسیاتی محاذوں پر پارٹی سے باہر کرنی ہوتی ہے، اس سے دُگنی جدوجہد آپ کو پارٹی کے اندر منفی رجحانات و گروہی نفسیات کے خلاف لڑ کر کرنی ہوگی۔‘

دُنیا کے مختلف سماج الگ الگ قسم کی سماجی نفسیاتی بیماریوں کے شکار ہوتے ہیں، کچھ سماج تو مکمل طور پر بیمار ہوتے ہیں، جیسے کہ ’غلام سماج‘۔

ایسے سماجوں میں رہنے والی قوموں کی آزادی کے لیئے ایک ہی وقت دو جنگیں لڑنی پڑتی ہیں؛ ایک’قومی آزادی کی جنگ‘ اور دوسری خود اس سماج کے اندر موجو د ’نفسیاتی بیماریوں و رُجحانوں کے خلاف جنگ‘ ۔ تب جا کر وہ سماج صحیح معنوں میں آزادی حاصل کرتا ہے۔
ایک اچھے سیاسی و انقلابی کارکن کے لیئے لازمی ہے کہ وہ اپنے سماج کا بہترین ’نفسیاتی ڈاکٹر‘ بھی ہو۔اپنے سماج کی سماجی نفسیات کی پیچیدگیوں کو سمجھ کر اپنی سیاسی و مزاحمتی جدوجہد کی حکمت عملیوں کو تشکیل دے رہا ہو۔

دنیا کے سارے سماج مختلف ادوار سے گذر کر اپنی ذہنی،نفسیاتی، سیاسی، سماجی، علمی، سائنسی و ٹیکنیکی ارتقا کرتے آئے ہیں۔ پتھرکے دؤرِ قدیم میں انسانی شعور نے اتنی ارتقا نہیں کی تھی کہ وہ سماج بناسکے اور قبیلوں اور قوموں کی شکل میں رہ سکے، آگے چل کر انسان نے گروہوں کی صورت میں رہنا شروع کیا۔دریاؤں اور ندیوں کے کناروں پر انسان نے جب کھیتی باڑی شروع کی اورقدیم زراعت، صنعت و حرفت کا آغاز کیا تو وہاں سے زرعی یا اوائلی تہذیبی دور شروع ہوا۔
ہمارے برِصغیر کی سماجوں کی جو نفسیات رہتی آئی ہے، وہ دور ِ قدیم یا اوائلی تہذیبی دور سے مذہبی،نسلی،گروہی اور ہیرو ازم پر مبنی سماجی ساخت کی رہتی آئی ہے۔حتیٰ کہ برِصغیر کی سب سے بڑی اور قدیمی جنگ ’مہابھارت‘ بھی محض آریاؤں کے دو قبیلوں کوروؤں اور پانڈؤں کی بیچ لڑی جانے والی جنگ تھی۔ جسے اب بڑھا چڑھا کر قصوں اور کہانیوں میں مذہبی اور قومی جنگ کا نام دیا جا رہا ہے۔

برِصغیر کی تاریخ میں رقم اس طرح کی بہت ساری جنگیں جوکہ تخت و تاج، راجا مہاراجاؤں اور مختلف نسلی و مذہبی گروہوں کے بیچ میں لڑی جانے والی جنگیں تھیں۔ جن میں سب سے زیادہ عنصر ’ہیروازم‘ کا شامل رہا ہے، وہ ہی نفسیاتی ساخت آج تک ہمارے سماجی گروہی نفسیات بنانے کا سب سے بڑا سبب بنی بیٹھی ہے۔ ہم آج تک اسی ہی ذہنی ساخت میں سوچ رہے ہیں اور اسی ہی گروہی نفسیاتی طرز و عمل میں خود کو اور اپنے گروہ کو ’ہیروازم‘ کے ’الیوژن‘ میں دیکھنا پسند کر رہے ہیں۔ یہ ایک قسم کا ’نفسیاتی سینڈروم‘ ہے، جس کا ہم بہت بُری طرح سے شکار ہیں اور جس ذہنی خول میں ہماری گروہی نفسیات کی پالنا ہو رہی ہے۔ آنکھوں پر پہنے ہوئے جس ’گروہی چشمے‘ سے دیکھنے سے ہمیں اپنے گروہ سے باہر کا ہر آدمی بے علم،جاہل،مشکوک،سازشی حتیٰ کہ کِن حالات میں دُشمن نظر آتا ہے۔

پیڈاگاگی کے عظیم برازیلی فلاسافر پائلو فریری نے اپنے کتاب’علم تدریس مظلوموں کے لیئے‘ میں ظالم اور مظلوم کی ذہنی ساخت اور نفسیات پر بہت تفصیل میں لکھا ہے کہ کس طرح ایک مظلوم یا مظلوم قوم ظلم و غلامی میں پیستے پیستے خود ہی ظالم کی کاپی کرکے اس کی طرح سوچنے اور بننے کی خفت میں لگ جاتی ہے۔جس میں مظلوم طبقوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیمیں اور لیڈر شپ ایک طرف ظالم، جاگیرداری،قبائلی نظام پر تنقید کرتے کرتے دوسری جانب خود ہی ان سارے جاگیردارانہ، موروثیت ، ذاتی ملکیت اور سرمائیدارنہ روئیوں کا شکار ہوجاتی ہیں اور اس طرح نام نہاد انقلابی تنظیموں اور لیڈرشپ کے نام پر پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ’سماجی ناسور‘ کا جنم ہوجاتا ہے۔جو سماجوں اور قوموں کو آزاد کرنے بجائے ایک نئی قسم کی ’جدید جہالت‘کا شکار کرکے آکر بند گلی میں کھڑا کردیتی ہیں۔ کسی بھی جدوجہد میں رہبر یا رہزن کوپرکھنے کا یہ ہی سیاسی پئمانہ ہوتا ہے کہ رہبر آپ کو بند گلی سے نکال کر منزل کا راستہ دکھائے گا اور رہزن آپ کی جدوجہد و صلاحیت کا استعمال کرکے گھما گھما کر آخر میں آکر بند گلی میں پھنسا کر ختم کردے گا۔

ایسی ساری جدوجہدیں اور جنگیں شکست ہی کھائیں گی، جو گروپ سائکلاجی کا شکار بنی ہوئی ہیں۔ جن میں اجتماعیت کا عنصر شامل نہیں ہے۔

دوسری جنگِ عظیم میں جرمن قوم اور جرمن فوج کو ایسی ہی گروہی نفسیات کا شکار بنانے والا ایڈولف ہٹلر کا ایک ایسا ہی نفسیاتی پروپیگنڈنٹ گوئبلز بھی تھا ، جس کی جھوٹی پروپیگںنڈا کے تحت جرمن فوج آکر بند گلی میں پھنس گئی ، جرمنی ہار گیا اور آخر میں ہٹلر اور گوئبلز نے خودکشی کرلی۔

یہ ہی نفسیات آج ہماری سندھ کی ساری قومپرست اور سیاسی سماجی تنظیموں کے رہنماؤں کی بنتی جا رہی ہے۔

گروہی نفسیات (گروپ سائکلاجی) کیا ہے؟
’جب کوئی گروہ یا ٹولہ کسی بھی وقت میں پیدا ہونے والے یا پیدا کیئے گئے کن مخصوص حالات میں کسی مخصوص انداز سے سوچنے لگے اور اس گروہی سوچ کو زمینی حقیقت یا ’حقیقی سچ‘بنا کر پیش کرے اور اسی گروہی سوچ پر مشتمل کوئی سیاسی، سماجی، مذہبی یا علائقائی گروپ بنا کر کام کرنا شروع کردے۔

یہ ہی گروہی نفسیات ہے، جس سے بالواسطہ یا بلا واسطہ زمینی حقیقت اور قوم کی اکثریتی عوامی شعور کا کوئی تعلق ہی نہیں ہو۔‘

سندھی سماج اجتماعی طور پر ایسے گروہی ٹولے بازیوں اور نام نہاد قومی سیاسی اور سماجی دَھڑے بندیوں کا شکار ہے۔نظریاتی حوالے سے قوم کا تصور تو موجود ہے لیکن دوسری جانب عملی طور پر قومی وحدت، قومی مفادات اور قومی یکجہتی کی کوئی مادی شکل موجود نہیں ہے۔بقول سائیں جی ایم سید کے کہ یہ ہی سبب ہے کہ سندھ کا قومی شیرازہ بگڑہ ہوا ہے۔سندھ کی تمام سیاسی، سماجی،تنظیمی و قومی سطح پر ساری ناکامیوں اور لاحاصلات کا بنیادی سبب یہ ہی ’گروہی نفسیات‘ ہے۔
گروہی نفسیات کا شکار بنانے والے بنیادی فیکٹرز؛
۱۔ متاثر کرنے والے لوگ
‏ Impression Builders

یہ لوگ سماج کے لیئے ناسور ہوتے ہیں۔اس قسم کے لوگ گویا کہ وہ کسی سیاسی، سماجی یا کسی اور گروہ یا شخصیت کے پیروکار یا تعلق رکھنے والے لوگ ہوں، وہ اپنے لوگوں میں اپنے اپنے ’گروہی سچ‘ (جھوٹ) کو اس طرح سے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ گویا اگر ان کا حصہ نا بنا جائے تو سندھ تباہ ہوجائی گی۔

ایسے سارے گروہ،ٹولے، لیڈر اور انجمنیں گروہی طور پر خود فریبی اور گروہ فریبی کا شکار ہوتی ہیں۔ان سب پر ’دُلے شاہ‘ کے چوہوں کی طرح گروہی انداز سے سوچنے،سَمجھنے اور چیزوں کو دیکھنے، دکھانے اور پیش کرنے کا ماہرانہ اندازِبیان اورسانچہ بنا ہوتا ہے۔جبکہ وہ سب گروہی ٹولے ایک طرف’خود فریبی‘ کا شکار ہوتے ہیں اور دوسری جانب شعوری لاشعوری طور پر ’قوم فریبی‘ کر رہے ہوتے ہیں۔

۲۔غیر متعلقہ لوگ Non-Relevent People
جیسا کہ میں نے کچھ عرصہ قبل ’دی بلوچستان پوسٹ‘ میں شائع کیئے گئے اپنے ایک اور مضمون ’سچ کیا ہے؟‘ میں تفصیلی طور پر لکھا تھا کہ سندھ کے تقریباً سارے سیاسی،سماجی،علمی، ادبی اور نام نہاد انقلابی لیڈرز خود کو دنیا کے تقریباً سارے شعبوں کا ماہر کہلاتے ہیں۔ اسی وجہ سے سندھ اس صورتحال میں پھنسی ہوئی ہے۔یہ ایک المیہ ہے سیاست کے شعبے سے غیروابسطہ لوگ سندھ میں بیروزگاری کی حالت میں سیاست کو ’ذریعہ روزگار‘ بنا کر اپنی اپنی گروہی ٹولیبازی کی سیاست کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور ایسا ہی حال سندھ میں ٹک ٹوک کی پیداوار’ممی ڈیڈی جنریشن‘کا ہے، جو سندھ کی مزاحمت کو بھی ٹک ٹوک بنا کر سندھ کی آزادی کے لیئے لڑنے کے جذبے سے سرشار ہیں! جن کا ٹوٹل ٹیمپو کوئی چھہ یا بارہ مہینے تک برقرار رہ پانے جتنا بھی نہیں ہے۔سندھ کی ہر قسم کی سماجی و دیگر فیلڈز میں بھی ان شعبوں میں اسی ہی قسم کے غیر متعلقہ لوگوں کا جمِ غفیرہ بنا ہوا ہے۔جس کا نتیجہ بھی پھر وہ ہی آرہا ہے۔جو لوگ سیاست و مزاحمت سمیت مختلف فیلڈز میں ناکام ہوکر آخر میں مایوسی اورفرسٹیشن پھیلا رہے ہوتے ہیں،اس میں قصور اس جدوجہد، نظرئے،فکر یا اس فیلڈ کا نہیں ہوتا بلکہ وہ خود ہی کہیں نا کہیں کسی گروہی نفسیات کا شکار ہوگئے ہوتے ہیں، جس کے اختتام پر ایسی ہی فرسٹیشن کا پیدا ہونا فطری عمل ہے۔کہیں پر تو ایک گروپ سائکلاجی کے ریئکشن میں پھر سے کسی اور گروہی ٹولوں کا وجود پڑ جاتا ہے۔ج کا آخری نتیجہ پھر وہ ہی ہوتا ہے۔سندھ میں پارٹیوں کی بار بار توڑ پھوڑ اور بار بار نئی پارٹیوں اور گروپوں کے پیدا ہونے کے پیچھے وہ ہی گروپ سائکلاجی کارفرما ہے۔

٣۔ ۔سوشل میڈیائی گروہ؛
آج کل سندھ میں اک نئی بدعت اور سیاسی جہالت کا زور پایا جا رہا ہے، کہ فیس بوک اور ٹوئیٹر پر بیٹھے بیٹھے نئے ’اچانک سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں‘ کا جنم ہوجاتا ہے۔ ایسے گروہوں میں شامل لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ گراؤنڈ پر مل کر کام کرنے کا نا کوئی تجربہ ہوتا ہے، نا ان کو ایک دوسرے کے صحیح بیک گراؤنڈ کی کوئی خبر ہوتی ہے، نا وہ گراؤنڈ ریئلٹیز سے واقف ہوتے ہیں اور ناہی وہ گراؤنڈ ریئلٹیز کے مطابق کوئی سیاست کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ بس سوشل میڈیا پر کوئی فیک نیوز وائرل ہوگئی،اس پر ایسے الگ الگ فیس بوکی گروہوں کا دَھرنوں اور مظاہروں کا اعلان بھی ہوجاتا ہے اور ان گروہوں کے اپنے اپنے ذہنی نفسیاتی پئمانوں کے حساب سے وہ جنگ بھی جیت لی جاتی ہے۔اسی طرح سوشل میڈیا آج نقلی اور مصنوئی ہیروز اور ریڈیمیٹ لیڈرز کے بنانے کی فیکٹری بنی پڑی ہے۔ بنا کسی سیاسی بیک گراؤنڈ کے پتا ہی نہیں چلتہ کہ کوئی کہاں سے پیدا ہوا اور سندھ کا سورما اور سورمی بھی بن گیا۔ اب صرف انہوں کے ہاتھوں انقلاب کا آنا باقی ہے۔

سندھی سماج تاریخ میں کئی بار بری طرح سے ایسی شدید ہیجانی کیفیت کاشکار ہوا ہے۔ یہ ہی گروہی کیفیت سندھی سماجی کے اصل قومی اور عوامی طاقت بن پانے کی کوشش کے سامنے بڑی رکاوٹ بنی بیٹھی ہے ۔ کیونکہ زیادہ تر ایسے فیس بوکی اشوز اور گروہوں کے مینوفیکچرنگ کے پیچھے ’کچھ انجنیئرڈ ہاتھ‘ کارفرما ہوتے ہیں۔

گروپ سائکلاجی سے کیسے بچا جائے؟

مارکس کی موت پر اینجلز نے کہا کہ ’آج دُنیا کے بڑے دماغ نے سوچنا بند کردیا ہے‘ ۔ جب تک کسی بھی قوم میں سوچنے والے دِماغ موجود ہیں،وہ قوم نہیں مَرے گی۔

بقول سائیں ابراہیم جویو صاحب کے یہ ہی طریقہ ہی کسی بھی قسم کی گروپ سائکلاجی سے بچنے کا کہ ’ایک شعور یافتہ انسان‘جب تک زندہ ہے، تب تک اُسے پڑھتا رہنا چاہیئے، لکھتا رہنا چاہیئے اور سوچتا رہنا چاہیئے۔ یہ ہی فارمولا ہے سچ کے حقیقی ادراک ہونے کا۔

ادراک انسان کی چھَٹی حَس کے ساتھ کام کرتا ہے اور چھٹی حس بھی اُنہی کی ہی کام کرتی ہے، جن کی پچھلی پانچ حَسیں صحیح طرح سے کام رہی ہوتی ہیں۔ جس میں انسانی تجربات، مشاہدات اور علم و عقل کے ذریعے حاصل ہونے والے تمام نتائج و نظریات شامل ہیں۔

شعور بنیادی طور پر ہوتا ہی یونیورسل ہے۔ باقی سب اس کے سیاسی، سماجی ارتقائی مرحلات ہوتے ہیں۔اجتمائی شعور ہی تمام ’گروہی نفسیاتوں‘ کا توڑ ہے۔

ایسے اداروں کی اشد ضرورت ہوتی ہے ، جو ایک دوسرے کی کارگردگی پر چیک اینڈ بیلنس رکھ سکیں ۔

یہ ہی ماڈل یورپ کے نشاۃِ ثانیہ (Renaissance of Europe)
اور انقلابِ فرانس میں اپنایا گیا۔جس رنائساں نے پورے یورپ کو پانچھ سؤ سال تک جھنجھوڑا اور یورپ کو ایک ہزار سالوں کے اندھیرے دور سے نکال کر اُسے صدیوں تک کی نئی روشنی کے دور میں داخل کردیا۔
اجتماعی شعور (Collective Conciousness)
تحقیق، تجدید، سائنسی، علمی و عقلی طریقوں کی کھوج سے ہی حاصل ہوتا ہے او ر کسی بھی جدوجہد کا نتیجہ حاصل کرنے کے لیئے قومی اتفاقِ رائے
‏ (Consensus)پید ا کرنے کا راز صرف زمینی حالات کے دُرست سیاسی اداراک کے پیچھے ہی کارفرما ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔