کوئٹہ: خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ریلی، مظاہرے اور سیمینار کا انعقاد

238

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں 8 مارچ عالمی یوم خواتین کی مناسبت سے ریلی، مظاہرے اور دیگر تقاریب کا انعقاد کیا گیا۔

عورت الائنس کوئٹہ کے زیر اہتمام ایک ریلی نکالی گئی، ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے خواتین سماجی انصاف، پدر شاہی کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے پریس کلب کے سامنے پہنچ گئے اور یہاں خواتین نمائندوں نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم مرد کے نہیں بلکہ اس سوچ کے خلاف لڑ رہے ہیں جو عورت کو کمتر سمجھتی ہے۔

انہوں نے کہا عورت اس سماج کا حصہ ہے اور معاشرے میں عورت کے کرادر کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے۔

جبکہ وومن ڈیموکریٹک فرنٹ نے عوامی یکجہتی محاذ کے ساتھ مل کر عورت آزادی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ جس میں بڑی تعداد میں شہر کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔

شرکاء سے زرغونہ بڑیچ، کنزا فاطمہ، ہما فولادی، نفیسہ شاہ، ایڈوکیٹ راہب بلیدی، بی این پی کے سینیٹر ثناہ بلوچ اور معمر بائیں بازوں کے کامریڈ صوفی عبدالخالق نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

منتظمین کا کہنا تھا کہ وومن ڈیموکریٹک فرنٹ اور عوامی یکجہتی محاذ بلوچستان کے تمام اقوام اور طبقات کی نمائندگی کرنے والی سوشلسٹ تحریکیں ہے جنکا مقصد سماجی، صنفی اور معاشی نا انصافیوں پر مبنی نظام کو انقلابی بنیادوں پر گرانا ہے۔

ڈبلیو ڈی ایف بلوچستان کے آرگنائزرز ایڈوکیٹ فاطمہ خلجی اور خالدہ قاضی نے کہا کہ ہماری جہدوجہد مساوات پر مبنی معاشرے کے تشکیل تک جاری رہے گی۔

کوئٹہ میں خواتین کی دن کے مناسبت سے بلوچستان میں عورت کی سیاست، ریاست تعلیم اور روزگار سے بیدخلی، بلوچستان میں صنفی پالیسی سازی اور قانون سازی، بلوچستان میں قومی جبر اور عورتوں پر اس کے اثرات: بلوچ عورت کی آواز اور دیگر موضوعات پر بحث کیے گئے۔

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں یوم خواتین کی مناسبت سے مختلف تقاریب اور مظاہروں میں طالبات بھی شریک رہیں۔

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرے میں شریک طالبہ نے کہا کہ بلوچستان میں خواتین کے مسائل پاکستان کے دیگر علاقوں سے الگ اور مختلف ہیں۔

ان کے مطابق آج جہاں ہم کھڑے ہیں یا ہمیشہ بلوچستان بھر سے خواتین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہوتے ہیں جو ریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پدر شاہی نظام موجود ہے لیکن ریاست نے یہاں خواتین کو زیادہ پریشانی سے دوچار کی ہے۔