کراچی میں کافکا اور فینن پڑھنے والے بلوچ طلبا سے ملاقات – گہرام اسلم بلوچ

366

کراچی میں کافکا اور فینن پڑھنے والے بلوچ طلبا سے ملاقات

تحریر: گہرام اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎یہ جامعہ کراچی کا برسوں سے چلتا ہوا اکیڈمک  روایت ہے کہ ہر سال مارچ کے مہینے میں سالانہ کتب میلہ کا انعقاد کیا جاتا ہے ،طویل خاموشی  اور کرونا وبا کے بعد  جامعہ کراچی کا پہلا سالانہ اجتماع  اور رنگا رنگ ادبی ماحول منعقد ہو رہا ہے۔ ہر سال کی طرح  اس سال میں  بھی کتب میلے کی میزبانی ( اسلامی جمعیت طلبا) تنظیم کر رہی ہے ۔  کتب میلہ کا ایک مختصص جگہ ( یونیورسٹی جمینزم) حال  ہے جس کے اطراف آپ کو اسلامی تعلیمات  کے خطاب سُننے کو بھی ملتے ہیں مگر اندر تمام ، ادبی، سیاسی، تاریخی اسلامی اور نصاب  کے پببلشرز کی  بک اسٹالز نظر آتے ہیں جہاں ہر قسم کی کتاب،  فلسفہ،سیاست، ادب، اسلام، تاریخ اور   دیگر موضوعات پر کتابیں  خصوصی ریاعت پہ دستیاب ہوتی ہیں۔

‎طلبا اور طالبات کا رش ہے ہر اسٹوڈنٹ آپکو سر جکا کر کتابوں کی ورک پلٹ کرتا ہوا نظر آئے گا ، کچھ کتابی شوقین اپنی پسندیدہ  موضوعات پر کتابیں تلاش کرتےہوئےبے چین نظر آتے ہیں اور کچھ ہماری طرح   پبلشرز کو پرانی سلام دعا کی غرض سے آہستہ آہستہ چہلقدمی کرتے ہوئے  جاننے والوں   سے گپ شپ میں محو مصروف ہوجاتے ہیں۔ نظم و نسق سے  لگی بک اسٹالز  کی قطاروں اور انکے تنگ راستوں سےچلتے چلتے  قدم کراچی یونیورسٹی کے طلبا  کی جانب سے بلوچستان سے متعلق  لگائے گئے  بک اسٹال پہ رک گئے کہ جہاں  ہر داخل ہونے والے اسٹوڈنٹس   کو اپنی رویتی اور مہمان نوازی کی انداز سے ویلکم کیا جارہا تھا کوئی نہ چاہتے ہوئے بھی  انکی مسکراہٹ اور خوش اخلاقی سے متاثر ہوکر کچھ نا کچھ کتاب ضرور لے لیتا۔

‎اس تمام  صورتحال کی تمہید  یوں  باندھتے ہیں  کہ  یہاں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بلوچ طلبا کن موضوعات پر  زیادہ ذوق رکھتے ہیں تو اس مختصر  دورے پر  یہ علم ہوا کہ بلوچ  طلبا  بھی ادب، تاریخ ، فلسفہ اور سنگمڈفرائڈ  ، اوشو  ، کافکا، فینن ، سارتر، منٹو جیسے لکھاریوں کے تحریروں سے بے پناہ محبت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ہر بلوچ طلبا کے ہاتھ میں ترقی پسند ادب اور فلسفہ سے متعلق کتابوں کا ایک  پلاسٹک تھا۔ تو یوں  جامعہ کراچی میں زیر تعلیم  بلوچ طلبا سے بلوچستان میں کتب بینی کے حوالے سے گفتگو ہوئی اور یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ ہماری نوجوان نسل  سیاست، ادب، فلسفہ اور دیگر سماجی علوم سے نا صرف گہری  دلچسپی  رکھتے ہیں بلکہ  انکا مؤضوع ِ سخن  ہے۔

‎ایک نوجوان قاری اور پبلشر کے مطابق ہر سال کراچی یونیورسٹی میں  منعقدہ تین روزہ کتب میلہ میں بلوچ طلبا کے زیراہتمام لگائے گئے بک اسٹالزمیں ، بلوچی، براہوئی، انگلیش اور اردو کے مختلف موضوعات پہ صرف ہمارے  پبلشر کے تقریبا  تیس سے چالیس ہزار کا سیل ہوجاتا ہے۔

‎بلوچ  نوجوان کہتے ہیں کہ ہم   یونیورسٹی میں نصاب کے علاوہ  تاریخ، ادب، سیاست اور  ملکی و بین الاقوامی سیاسی صورتحال پہ بھی گہری نظر رکھتے ہوئے اُنکا بھی مطالعہ کیا کرتے ہیں۔

‎جامعہ کراچی میں بلوچ طلبا و طالبات یہاں کے ( انرولڈ) اسٹوڈنٹس کے حساب سے تو بہت ہی کم تعداد میں ہیں مگر پھر بھی وہ یہاں  پابندی کیساتھ ہفتہ وار  ( بک ریویو) اور دیگر ادبی و فکری نشستوں کا انعقاد کیا کرتے ہیں ۔ ادب اور سیاست  ملک بھر میں زیر تعلیم بلوچ طلبا و طالبات کا پسندیدہ موضوع ہےوہ کہتے ہیں کہ کتاب کا مطالعہ ایسا ہے کہ جیسے ہم مصنف سے مخاطب ہوکر انکے محسوسات میں شامل ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے سے مکالمہ کیا کررہے ہوتے ہیں۔

‎جب ہم  بالغ ہوکر سکول کا رخ کیا کرتے ہیں تو ہمارے والدین اور بزرگ ہمیں سختی سے تلقین کرتے ہیں کہ نصاب کے علاوہ بھی ایک دنیا ہے اُس دنیا اور اُس دنیا میں بسنے والوں سے بے خبر  رہنا ایسا ہے جیسا آپ اپنے ہمسایے سے بے خبر ہیں، لہذا اب کتب بینی اور مطالعہ ہمارے شعور میں بھٹا دیا گیاہے ، مطالعہ کے بغیر ہم  ایسا محسوس کرتے ہیں  کہ ہم اپنی ذمہداریوں سے غفلت برت رہے ہیں۔ جو لوگ کتاب کو اپنا ساتھی سمجھتے ہیں اُنکے اندر فطری طور پر  انکساری و عاجزی پیدا ہوجاتا ہے ، انکی باتوں اور گفتگو اور مجالس کے لوگ شیدائی ہوتے ہیں ۔وہ اپنے  عہد کے  نوجوان نسل کو نئے خیالات  دیتا ہے انہیں  سوچنے پر آمادہ کرتا ہے۔ سکول اور کالج سے، ( کافکا، سارتر، سقراط،فرائڈ،  فینن، دوستوویسکی، منٹو، سبط حسن ، فیض، جالب قرۃ العین حیدر، فہمیدہ ریاض، شاہ محمد مری و دیگرکے) افکار کو پڑھنے والی   اس نسل کی سیاسی و سماجی رہنمائی کی جائے تو  کتاب سے محبت کرنے والی یہ نسل اپنی قوم  کو ایک کامیاب منزل تک پہنچانے میں ایک رہنما کا کردار ادا کرسکتا ہے۔  اس پر اعتماد اور  باصلاحیت  نوجوان کو مزید پالش کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ اس نسل سے مایوس نہیں ہونا  چایئے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔