وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں قائم کردیا گیا۔ سردیوں کے باعث کیمپ کو سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں پریس کلب کے سامنے تین مہینے کیلئے قائم کیا گیا تھا۔
بلوچ لاپتہ افراد کیلئے احتجاجی کیمپ کی رہنمائی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کررہے ہیں۔ احتجاج کو مجموعی طور پر 4244 دن مکمل ہوگئے۔ آج نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کیا۔
اس موقع پر ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ ظالم و مظلوم کے درمیان کشمکش جاری ہے، غاصب کا یہ حربہ بہت پرانا ہے کہ وہ ہمیشہ مظلوم کے جدوجہد کو کچلنے کیلئے انہیں سرے عام گولیوں کا نشانہ بنانے سمیت جبری طور پر لاپتہ کرکے یہ سجھتا ہے کہ اس طرح وہ جدوجہد کو ختم کرے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ دنوں مستونگ میں جعلی مقابلے میں زیر حراست اور لاپتہ افراد کو قتل کرنا بلوچستان میں ریاستی پالیسی کو بیان کرتی ہے۔ مذکورہ افراد سمیع پرکانی اور جمیل پرکانی کو فورسز نے سرے عام کوئٹہ سے حراست میں لیا جن کے حوالے سے ان کے لواحقین نے ایف آئی آر بھی درج کی جبکہ دیگر افراد کو پاکستانی خفیہ اداروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا تھا۔
ماما قدیر نے کہا مذکورہ پانچوں افراد کو ڈرامائی انداز میں جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا۔ واقعے پر ماسوائے چند ایک پارٹیوں اور تنظیموں کے خود کو قومپرست کہنے والے دیگر پارٹیوں اور افراد کی خاموشی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے پر پورے بلوچ قوم کو باہر آنا چاہیے، دنیا کو دکھانا چاہیے کہ ہم کس ریاستی جبر کے شکار ہیں۔