میں اور میری امی لاپتہ ہے کئی – گواڑخ بلوچ 

600

میں اور میری امی لاپتہ ہے کئی

تحریر : گواڑخ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

سلمان کے بیٹے اور کپڑوں سے لپٹ کر امی کا رونا اور ہر سال اس کے لاپتہ ہونے کے دن سے لیکر شہادت کے دن تک کو یاد کرکے رونا امی کے معمول میں سے ایک تھی، اب امی حسان کے تصویر کیساتھ لپٹ کر روتی ہے اور خدا سے فریاد کرتی ہے اگر زندگی اتنی حسین نہیں بخشی تھی تو بینائی سے ہی محروم کردیتے، روشنائی، پُھل، کنا ارانا روشنائی، پتہ نہیں کیا کیا نام بھائیوں کے امی نے رکھ لی ہے۔

امی کی دین دھرم بھی تبدیل ہوگئے، آدھی روٹی کسی غریب کو دے دینا، کبھی مشروب یا کوئی پھل کسی نادار و مریض کو دے دینا تاکہ اس کا رس بھائی کے گلے کو جا پہنچے، کبھی کسی پیر کے کہنے پر ایک ٹانگ پر کھڑی رہنا تاکہ بھائیوں کا آدھا سزا ماں کو ہی ملے، عطا کہ پینا ڈال اور دیگر دوا کسی درخت سے باندھ لینا تاکہ بھائیوں کو ملے ہوئے سزا کے زخم مندل ہوسکے، قران کو اس کے ہر لفظ سے لیکر اس کو نازل و نزول کا واسطہ دے کر سر پر رکھنا معمول کا حصہ ہے۔ یہ کیسی قرب ہے شاید کوئی ماں ہی جان سکے۔

عورت جب بھی دوہری جبر کا شکار ہوتی ہے تو وہ اس دہری جبر میں صرف سماجی برائیوں کا سامنا نہیں کرتی بلکہ بھائیوں کی غیر موجودگی میں گھر کو پالنا بھی ہوتا ہے، ماں باپ بہن بھائی کے پیٹ پال کر اسی پیٹ سے تھوڑا کاٹ کر بھائی کی رہائی کے لیے جدوجہد کرنا بھی ہوتا ہے، عدالتوں کے چکر سے لیکر وکیلوں کو منت سماجت کرنا، بار بار پٹیشن خارج کرنا گویا ہماری مزید پیٹ کاٹنے کی جانب دھکیلنا ہے، اس کسمپرسی میں نئے جوڑے سالوں بعد ملتے تھے اب تو دہائیوں کی بات ہوگئی، بس خدا کسی بیماری سے سامنا نہیں کرائے، بوڑھی ماں باپ کی ضعافت میں تو لازم ہے کچھ دوا روزانہ کی بنیاد پر خریدنا، بس خدا کسی کینسر یا ٹی بی سے سامنا نہیں کرائے ورنہ عدالتوں کے بعد یہ ہسپتال کئی کوششوں کے بعد بندھنے والی ہمت کو تھوڑنے کیلئے کافی ہوتی ہے۔

آئے روز نیا چرچہ، لاپتہ افراد کی کبھی احتجاج تو کبھی کمیشن کی سماعت، ماں سماعت کے تاریخ شائع ہونے والے اخبار کو بلوچی جیب میں ڈال کر پڑھا رہی ہوتی ہے، ہر گھر جاکر کسی سے پڑھا رہی ہوتی ہے کہ شاید دل کو کئی سے تسکین ملے۔ ماں آج کل وکیلوں اور لاپتہ افراد سے متعلق موٹے موٹے اصطلاحات بھی سیکھ چکی ہے جب بھی کئی بھائیوں کا ذکر ہو تو ماں فوراً سے یہ کچھ اصطلاحات استعمال کرکے بحث کو آگے بڑھا دیتی ہے، لوگوں سے کوئی خیر کی امید سننے کے لیے بے چین ہوتی ہے۔

بھائی کے ساتھ میں اورمیری بہنیں لاپتہ ہے، گھر سے گھریلوں کام سے نوجوانوں والی زندگی سے، اردگرد ابھرنے والی عام و خاص ثقافتوں سے لاپتہ ہوچکے ہیں۔ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے کئی پریس کلب کے سامنے، کئی وزیر اعلیٰ سیکٹریٹ میں، کئی کسی عدالت پر دستک دیتے ہیں تو کبھی ماما کے کیمپ میں ہوتے ہیں۔ جس عمر میں ہمارے بحث کا حصہ مختلف اقسام کے جوتے اور کپڑے ہونی چاہیے تھی وہی ہم مختلف اخبارات و نیوز چینلز کو اپنے گزرتے ہوئے قرب سنا رہے ہوتے ہیں۔ سماج میں ہمیں ہمدردی کی نگاہوں سے تکنا ہمیں مزید حیران کرتی ہے، لوگوں کا ہمیں روتے ہوئے دیکھ کر پریشان ہونا مزید پریشان کردیتی ہے۔ آج بھی ہم لاپتہ ہے، لاپتہ ہوکر وفاق کے نام نہاد عمارتوں کو ہم اپنی فریاد سنانے گئے تھے جو ہمارے زخموں اور درد کا مداوا نہیں ہوسکتی لیکن خود کو تسلی دینے اور دنیا کو بتانے کیلئے ہم نے وفاق کے دروازے پر بھی دستک دی تھی۔

ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمی کو روتی ہوئی دیکھ کر سکتے میں پڑجاتی ہوں کہ میں تو دو سال سے ان سڑکوں پر ہوں یہ بیچاری تو پچھلے گیارا سالوں سے ان سڑکوں پر دربدر کی ٹھوکرے کھا رہی ہے تب وہ جب شاید دس سال کی تھی جب اس کے والد کو لاپتہ کیا گیا۔ سوچتا ہو کیسے دن گزارے ہونگے اس نیم یتیمی کی حالت میں، جب وہ برے مجمے میں یا دفاتر میں کسی ادارے یا متعلقہ افراد للکار کر کہتی ہے کہ ہم ناانصافی کیخلاف ڈٹے رہینگے تو مجھ جیسے ہزاروں کو حوصلہ مل جاتی ہے کہ جدوجہد طاقت دیتی ہے کمزور نہیں کرتی ہے۔

آئے ! ماہ رنگ شاید خوش قسمت تھی جو جلد ہی اس کرب سے گزر کر وسم ہوگئی لیکن اب بھی وہ اپنے دیگر پیاروں کے لیے رائے تک رہی ہے، جدوجہد کی نئی امنگ سامنے لاکر ہم جیسوں کو توانا کررہی ہے کیونکہ اس وہ اس درد کو، کرب کو، درد کو محسوس کرسکتی ہے۔
میں اپنے بہنوں سے کہتی ہوں ہم نہیں تھکے گیں، نہیں رکینگے جب تک ہم اپنے ماں، اپنے بھائی اور پیاروں تاریکیوں سے واپس نہیں لاتے ہیں۔ ہم یکجہت ہوکر اپنا مقدمہ لڑینگے اور تاریکیوں سے دور اجالے میں اپنا بسیرا کرینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔