بعض تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان تحریک کے اندرونی مسائل پر سینیئر ترین رہنما کی جانب سے اس طرح کھل کر بات کرنے سے ان کے اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔
افغانستان میں طالبان تحریک کے نائب امیر سراج الدین حقانی نے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ قطر معاہدہ اگر ختم کیا گیا تو اس مرتبہ ’ایسی جنگ لڑی جائے گی جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔‘
کسی نامعلوم مقام پر طالبان جنگجوؤں سے تفصیلی خطاب میں سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ نئی امریکی انتظامیہ کے قطر معاہدے کے ازسرِ نو جائزے کو ’بلف‘ یا دھوکہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی تحریک نے 15 سال قبل کمزور عسکری قوت کے ساتھ مقابلہ کیا لیکن آج ان کے پاس ’مضبوط ایمان اور عسکری طاقت دونوں ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تاریخ میں انہوں نے کوئی معاہدہ نہیں توڑا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کے پاس اب ڈرون ٹیکنالوجی بھی ہے اور اپنے میزائل بھی۔ ان کا کہنا تھا کہ دشمن ’خواہش کریں گے کہ میدان جنگ ماضی کی طرح ہو جائے۔‘
انہوں نے اس غیرمعمولی طور پر میڈیا کو جاری کی گئی تقریر میں امریکہ اور نیٹو پر قطر معاہدے کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا۔ ’وہ ایک مقام پر چھاپہ مارتے ہیں تو دوسری جگہ بم برساتے ہیں۔ یہ قابل قبول نہیں ہے۔‘
سراج الدین حقانی ان دنوں اپنے مرحوم والد جلال الدین حقانی نیٹ ورک کی روز مرہ سرگرمیوں کو دیکھتے ہیں۔ ایک امریکی اخبار کے ساتھ ایک انٹرویو میں سراج الدین نے تسلیم کیا کہ 14 جنوری 2008 کے کابل کے سیرینا ہوٹل پر ہونے والے حملے کی انہوں نے منصوبہ بندی کی تھی۔ اس حملے میں چھ لوگ ہلاک ہوئے جس میں ایک امریکی شہری تھور ڈیوڈ ہیسلا بھی شامل تھا۔
مارچ 2008 میں عدالتی حکم کے تحت امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے سراج الدین حقانی کو ایک عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا اور ان کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر رکھی تھی۔
سراج الدین حقانی نے اس تقریر میں طالبان کے اندرونی مسائل پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور جنگجوؤں کے سیاسی صورت حال سے متعلق خدشات کا اعتراف کیا۔ طالبان کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’آپ نے میدان جنگ میں مثبت نتائج دیے ہیں اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے ہیں لہٰذا اب تمام دباؤ قطر میں سیاسی دفتر پر ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ہمارے ساتھی سخت کوشش کر رہے ہیں لہٰذا غلط فہمی کا شکار نہ ہوں اور دشمن کے جانبدارانہ پروپیگینڈے پر کان نہ دھریں۔‘
دوحہ معاہدے کے لیے کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے امیر انتہائی احتیاط سے کام لے رہے تھے۔ ’میں نے انہیں کبھی سیاسی امور میں جنگی امور کی طرح اتنا مصروف نہیں دیکھا تھا۔ وہ ہر بات پر لیڈرشپ کونسل سے مشورہ کرتے، پھر وہ علما کو بھیجتے تھے اور مکمل اطمینان کے بعد اس فیصلے کو قطر روانہ کرتے تھے۔ معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا اور ہمارے پانچ ہزار قیدی رہا ہوئے۔‘
یہ شاید پہلی مرتبہ ہے کہ کسی طالبان رہنما نے افغان عوام میں پائے جانے والے ان کے بارے میں خوف کو تسلیم کیا ہے۔ تقریباً 48 سالہ سراج الدین نے بتایا کہ انہوں نے افغانستان کے دو مختلف مقامات کا دورہ کیا اور دو باتیں نوٹ کیں۔ ’ایک تو (افغان) قوم ہم سے خوفزدہ ہے۔ دنیا کے پروپیگینڈے کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں خوف ہے۔ اس قوم سے ساتھ ایسا سلوک کرو جس سے آپ کی قدر بڑھے۔‘
سراج الدین حقانی نے کہا کہ دوسرا بڑا مسئلہ تحریک کے اندر مختلف امور کو دیکھنے کے لیے بنائے گئے کمیشنوں سے متعلق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کمیشنوں کے درمیان بہتر رابطوں اور باہمی سمجھ ختم ہو رہی ہے۔ ’بعض اوقات ایک کمیشن دوسرے کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے۔ تمام کمیشن ایک دوسرے کی مدد کریں تاکہ تعاون اور اتحاد برقرار رہ سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ امریکیوں نے خود کہا ہے کہ گذشتہ ایک برس میں ان کا ایک فوجی بھی افغانستان میں ہلاک نہیں ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ حیران ہیں کہ طالبان اپنے رہنماؤں کے کتنے تابعدار ہیں۔
انہوں نے ہلاک ہونے والے جنگجؤں کی بیواؤں کا بھی ذکر کیا اور تسلیم کیا کہ ان کی مناسب دیکھ بحال نہیں ہو رہی ہے۔ ’میں نے سنا ہے کہ ایسی بیواؤں کو گھروں سے نکال دیا گیا اور وہ گلیوں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہوئی ہیں۔ انہوں نے ہمیں مدد کے لیے رجوع بھی کیا ہے۔‘
تحریک کے اندر بعض ساتھیوں کی کمزوریوں اور غلطیوں کا بھی انہوں نے ذکر کیا، تاہم کسی کا نام نہیں لیا۔ ’ہم نے انہیں ابھی تحریک سے نکالنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ یہ لوگ تھک چکے ہیں لیکن انہیں اپنے آپ کو درست کرنا ہو گا۔‘
انہوں نے طالبان کے اندر ایک اور مسئلے کی جانب بھی نشاندہی کی جو تحریک کے لیے یقیناً سب سے زیادہ قابل تشویش ہوسکتی ہے اور وہ ہے جنگجوؤں کا لڑائی کے لیے طلب کیے جانے پر آنے سے انکار۔ انہوں نے ننگرہار کی مثال دی اور کہا کہ جب وہ وردگ، غزنی یا دیگر صوبوں سے طلب کرتے ہیں تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ ہم اپنے باری نمٹا چکے ہیں یا ابھی سردی ہے ہم بہار میں دستیاب ہوں گے، وغیرہ۔
طالبان بیان کے مطابق یہ تقریر سراج الدین حقانی نے فروری کے وسط میں کی تھی۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان تحریک کے اندرونی مسائل پر اس طرح کھل کر بات کرنے سے ان کے اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔ ’انڈپینڈنٹ اردو‘ کے ایڈیٹر ان چیف بکر عطیانی کا جنہوں نے افغانستان کی طویل عرصے سے کوریج کی ہے کہنا تھا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے اسے یہ مسائل درپیش ہیں۔
’یہ مسائل کسی بھی عسکری گروپ کو درپیش ہو سکتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سراج آذادی سے افغانستان میں گھوم پھر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کی جانب سے قطر معاہدے کی باضابطہ حمایت سامنے آئی ہے بلکہ اس کا دفاع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ساتھ میں ٹیکنالوجی کے حصول کا دعویٰ بھی کافی دلچسپ ہے۔