شارلی ایبدو کے پرانے دفتر پر حملہ کرنے والا خادم رضوی اور عمران خان سے متاثر تھا

220

گذشتہ سال کے ستمبر میں فرانسیسی جریدے شارلی ایبدو پر حملہ کرنے والے پاکستانی شخص کے بارے میں سامنے آنے والی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر پر انتہاء پسند مبلغین کی ویڈیوز دیکھ کر اور فرانس مخالف مظاہروں کی وجہ سے شدت پسندی کی جانب مائل ہوئے تھے۔

پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ 26 سالہ پاکستانی شخص چاقو سے حملہ آور ہونے سے قبل یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر موجود ’شدت پسند مبلغین‘ کی ویڈیوز سے متاثر ہوا تھا جن میں فرانس اور شارلی ایبدو کی مذمت کی گئی تھی۔

ظہیر حسن محمود نے تفتیشی حکام کو بتایا کہ ’میں ان ویڈیوز کو دیکھتے ہوئے رو رہا تھا۔ میں کھانا بھی نہیں کھا سکتا تھا۔‘

حملے سے ایک ہفتہ قبل شارلی ایبدو نے پیغمبر اسلام کے خاکے دوبارہ شائع کیے تھے جو مسلمانوں کے مطابق توہین مذہب کے زمرے میں آتے ہیں۔

شارلی ایبدو نے یہ خاکے سال 2015 میں اپنے دفاتر پر ہونے والے حملے میں ملوث ملزم کے مقدمے کے آغاز پر دوبارہ شائع کیے تھے۔

رپورٹ کے مطابق حملہ آور ظہیر حسن محمود کا کہنا تھا کہ انہیں احساس نہیں ہوا کہ شارلی ایبدو سال 2015 میں ہونے والے حملوں کے بعد سے اپنے دفاتر اس مقام سے کہیں اور منتقل کرچکا ہے اور انہوں نے جن دو افراد پر گوشت کاٹنے والے ہتھیار سے حملہ کیا وہ انہیں اس جریدے کے ملازم سمجھ رہے تھے۔

حملے میں شدید زخمی ہونے والے دونوں افراد ایک اور نشریاتی ادارے سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کا شارلی ایبدو سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

حملہ آور ظہیر محمود کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے کوٹھلی قاضی سے ہے۔ وہ غلط کاغذات پر فرانس میں داخل ہوئے تھے اور انہوں نے کم عمر ہونے کی بنیاد پر وہاں پناہ حاصل کر رکھی تھی۔

پاکستان میں مذہبی گروہوں نے گذشتہ ستمبر میں شارلی ایبدو کے خلاف خاکے شائع کرنے اور فرانسسیسی صدر میکروں کے خلاف آزادی اظہار رائے اور توہین مذہب کا دفاع کرنے پر مظاہرے بھی کیے تھے۔

رپورٹ کے مطابق حملہ آور ظہیر محمود نے تحریک لبیک پاکستان کے بانی خادم حسین رضوی سمیت کئی دیگر بنیاد پرست مبلغین کی ویڈیوز دیکھی تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ظہیر محمود پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے بھی متاثر تھے جنہوں نے فرانسیسی صدر میکروں پر ’اسلام پر حملہ کرنے‘ کا الزام عائد کیا تھا۔

پاکستان میں توہین مذہب ایک مجرمانہ فعل ہے اور مذہبی شخصیات اور اسلام کی توہین کرنے والوں کو پھانسی کی سزا دی جاسکتی ہے۔

ظہیر محمود کے مطابق وہ صرف دفتر کی عمارت کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے اور ان کا مقصد کسی انسان پر حملہ کرنا نہیں تھا۔ انہوں نے حملے میں زخمی ہونے والے افراد سے معافی بھی مانگی ہے۔

تفتیشی حکام نے حملے سے ایک روز قبل ظہیر محمود کی جانب سے ان کے دوست کو بھیجی جانے والی ایک ویڈیو بھی تلاش کی ہے جس میں اہانت مذہب کرنے والوں کی گردن اڑانے کا کہا گیا تھا جبکہ انہیں اسی روز یونان سے ایک کال بھی موصول ہوئی ہے جس سے یہ ایک منظم کارروائی محسوس ہوتی ہے۔

ظہیر محمود پر ’دہشت گردی سے تعلق اور اقدام قتل‘ کی دفعات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے۔