زاہد بلوچ: جبری گمشدگی کے سات سال – ریاض بلوچ

585
آرٹ: زاکر

زاہد بلوچ: جبری گمشدگی کے سات سال

تحریر: ریاض بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

18 مارچ کو زاھد بلوچ کی جبری گمشدگی کے سات سال مکمل ہوگئے ہیں. زاھد بلوچ کو اسد بلوچ کے ساتھ بلوچستان کے مرکزی شہر شال سے شہید بانک کریمہ بلوچ اور دوسرے عینی شاہدین کی موجودگی میں ریاستی فورسز کے اہلکاروں نے اغواء کیا تھا، وہ بلوچستان کی سب سے بڑی طلباء تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین تھے. ریاست نے بانک کریمہ بلوچ کو شاید اس لیئے بھی شہید کیا کہ وہ چیئرمین زاھد بلوچ گمشدگی کیس میں چشم دید گواہ تھی، اور وہ زاھد بلوچ کیس کو فالو کر رہی تھیں، لیکن یہ ریاست کی بھول ہے کہ وہ اس طرح شواھد مٹانے سے اپنا جرم چھپا سکتی ہے.

زاھد بلوچ نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 2003 میں بی ایس او پجار کے پلیٹ فارم سے کیا تھا، وہ 2005 میں بی ایس او پجار کراچی زون کے صدر بھی رہ چکے ہیں، 2006 میں بی ایس او کے تینوں دھڑوں کا جب انضمام کے بعد مرکزی قومی کونسل سیشن شال میں منعقد ہوا تو زاھد بلوچ بھاری اکثریت سے بی ایس او کے مرکزی کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے، بعد میں بی ایس او کے نام کے ساتھ آزاد کا اضافہ کیا گیا.

زاھد بلوچ قومی کاز کے انتہائی مخلص اور ایک کمیٹڈ سیاسی کارکن رہے ہیں، ان میں کام کرنے اور کام کروانے کی صلاحیت تھی. نومبر 2008 میں بی ایس او آزاد کے منعقدہ مرکزی قومی کونسل سیشن جو بلوچستان یونیورسٹی شال میں ہوا اس میں زاھد بلوچ تنظیم بلا مقابلہ سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے، زاھد بلوچ نے بلوچ طلباء کے واحد سیاسی آواز بی ایس او آزاد کو ساتھیوں کے ساتھ مل کر بلوچستان سمیت کراچی اور دوسرے علاقوں میں بھی فعال کیا، یہ وہ وقت تھا جب کراچی، لاہور، اسلام آباد اور دوسرے بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بلوچ طلباء جوق در جوق بی ایس او آزاد میں شامل ہو رہے تھے. بی ایس او آزاد بلوچ طلباء کیلئے ایک تعلیمی درسگاہ اور بلوچ تحریک میں مدر آرگنائزیشن کی حیثیت رکھتی ہے، جس میں طلباء کی علمی تربیت ہوتی ہے.

فروری 2010 کو اوتھل لومز یونیورسٹی میں بی ایس او آزاد کے ایک تقریب میں زاھد بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے بلوچ طلباء کو خبردار کیا تھا کہ اب وقت آگیا ہے ریاست اپنے ڈیتھ اسکواڈ کے زریعے بلوچ طلباء کو نشانہ بنائے گا، زاھد بلوچ کو اس بات کا ادراک تھا کہ ریاست اب انہیں برداشت نہیں کرے گی، کیونکہ یہ ریاست جمہوری زبان سمجھنے سے بالکل عاری ہے، اسے بس ظلم و بربریت کی زبان آتی ہے، زاھد بلوچ کا یہ خدشہ بہت جلد ہی سچ ثابت ہوا اور دو مارچ 2010 کو ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی میں بلوچ طلباء پہ حملہ کیا اور خضدار میں اسکے علاوہ بھی ایک دوسرا حملہ بھی ہوا، دونوں واقعات میں بی ایس او آزاد کے چار طلباء شہید جبکہ متعدد زخمی ہوئے.

اس وقت بلوچ آزادی پسند تنظیموں پہ ریاستی کریک ڈاؤن شروع ہو چکے تھے، ایک چھوٹے سے عرصے میں بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے کئی ساتھیوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی گئیں تھیں، فورسز بی ایس او آزاد کے وائس چیئرمین زاکر مجید بلوچ کو جون 2009 میں اٹھا کر اغواء کر چکے تھے جو بارہ سال گزرنے کے باوجود تا حال جبری لاپتہ ہیں. اور یہ سلسلہ رکا نہیں تھا، اگلے کچھ ہی سالوں میں ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے بی ایس او آزاد کے مرکزی اور زونل زمہ داروں کو اٹھا کر غائب کرنا اور انکے لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنے کا سلسلہ شروع کیا تھا، ریاستی حکام کی جانب سے جبر اور بربریت کا یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ تا حال جاری ہے.

زاھد بلوچ ایک سیاسی کارکن ہیں، جو کہ ایک جمہوری سیاسی بلوچ طلباء تنظیم کے چیئرمین رہے ہیں، زاھد بلوچ نے ہتھیار نہیں اٹھایا ہوا تھا وہ جمہوری طریقے سے اپنے قومی حقوق کی بات کرتے تھے، پر امن جمہوری سیاسی جدوجہد کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے، کوئی بھلا کسی کے سیاسی بیانیہ سے اختلاف رکھ سکتا ہے لیکن بزور شمشیر یا پابندِ سلاسل کرکے اس کے فکر اور نظریے کو دبایا نہیں جا سکتا.

زاھد بلوچ کی بازیابی کیلئے اسکی تنظیم بی ایس او آزاد نے پرامن احتجاج کے تمام تر طریقہ کار اپنائے، 46 دن تک بھوک ہڑتال کیا، احتجاجی ریلیاں نکالیں، بانک کریمہ بلوچ اس وقت تمام احتجاج کی قیادت کر رہی تھیں، پاکستان کے انسانی حقوق کے اداروں کے اس یقین دہانی پر بی ایس او آزاد نے اپنا بھوک ہڑتالی احتجاج ختم کیا کہ زاھد بلوچ کی بازیابی کیلئے وہ جلد از جلد مثبت قدم اٹھائیں گے اور انہیں زندان سے باحفاظت سامنے لایا جائے گا، لکن سات سال گزرنے کے باوجود آج تک اسے منظر عام پر نہیں لایا گیا.

زاھد بلوچ کی گمشدگی پر عالمی انسانی حقوق کے اداروں نے بھی اسکی زندگی پہ خطرات کا خدشہ ظاہر کیا اور پاکستانی اداروں پہ زور دیا کہ اسے جلد سامنے لائیں، لیکن پاکستانی ریاست کسی عالمی قوانین اور عالمی اداروں کی سننے اور عمل کرنے سے قاصر ہیں.

زاھد بلوچ پچھلے سات سالوں سے بنا کسی جرم کے غیر قانونی طور پر پس زندان ہیں، اسکی فیملی شدید کرب و اذیت میں مبتلا ہیں، کبھی شال تو کبھی کراچی یا اسلام آباد میں پریس کلبز کے سامنے احتجاج پہ بیٹھے رہے ہیں، اسکے والد پچھلے سال بیٹے کی جدائی اور غم میں نڈھال ہو کر وفات پا گئے ہیں، اسکی امی عاجز ہیں، اسکے بیٹے سات سالوں سے اپنے باپ کی شفقت اور پیار سے محروم ہیں، اسکی بیوی خود کو زاھد کی بیوی سمجھیں یا بیوہ؟ اس کا جواب وہ ریاست پاکستان سے مانگتے ہیں، تاکہ انہیں یہ تو بتا دیا جائے کہ کیا زاھد زندہ ہیں اور واپس آئیں گے کہ یا انہیں پس زندان ٹارچر کرکے شہید کر چکے ہیں. انکے فیملی کا بس یہی ایک مطالبہ ہے کہ اگر زاھد گناہ گار ہیں تو اس کو ریاست اپنے قائم کردہ عدالتوں میں پیش کرے اگر اس پہ کوئی جرم ثابت ہوتا ہے تو بھلے اس کو سزا دیں اگر وہ مجرم نہیں تو سات سالوں سے کس ناکردہ گناہ کی سزا کاٹ رہے ہیں؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔