بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ پاکستانی ریاست اور فوج نے بلوچ کے خلاف نئے حربے آزمانا شروع کردیا ہے۔ اس میں یورپ اور امریکہ میں پناہ حاصل کرنے والے پارٹی کارکنوں کو جبری گمشدہ افراد قرار دینے کی کوشش کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ آج پسنی کے وارڈ 6 میں پاکستانی فوج نے بی این ایم کے کارکناں کے گھروں پر دھاوا بول کراہلخانہ کو اس بنیاد پر تشدد بنایا کہ ان کے بچوں کے نام جبری گمشدہ افرادکے فہرست میں کیوں شامل ہیں۔ ان کے لیے احتجاج کیوں ہو رہا ہے۔ اس پر اہلخانہ نے فورسز کو بتایا کہ ان کے بچے سالوں سے وطن چھوڑ کر جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس کے باوجود فوجی اہلکاروں نے موبائل فون اور گھروں کی تلاشی لیکر لوگوں کو ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستانی فوج کی اس حرکت سے ہمیں خدشہ ہے کہ وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے بلوچ پناہ گزین کو ایک دفعہ لاپتہ قرار دیکر یا لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل کرکے یہ بتانے کی کوشش میں ہے کہ کوئی بلوچ جبری طور پر گمشدہ نہیں بلکہ بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ اس طرح کے حربوں سے پاکستانی فوج اپنی ماضی کی ناکام کوششوں کو ایک دفعہ پھر دُہرا رہا ہے جس میں وہ لاپتہ افراد کو افغانستان یا پہاڑوں میں جانے کا نام دیتے تھے۔
ترجمان نے کہا کہ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے حالیہ احتجاجوں کے بعد پاکستانی فوج اور وزیراعظم کے بیانات اور جھوٹی تسلیوں کے بعد پسنی میں رونما ہونے والا واقعہ اس جانب ایک اشارہ ہے کہ ان سے کئے گئے وعدوں کو ماضی کی طرح فریب دیکر ایک نیا حربہ استعمال میں لائی جارہی ہے لیکن جس طرح پاکستانی ریاست کی ننگی جارحیت دنیا کے سامنے عیاں ہوچکی ہے، اس کی تلافی مزید بربریت سے نہیں کی جاسکتی ہے۔ ریاست کے زندانوں میں قید افراد بلوچ قومی روح پر گہرے داغ کی صورت میں اس وقت تک موجود رہیں گے جب تک انہیں بازیاب نہ کیاجائے۔