جبری گمشدگی سے تحفظ کے لیے کراچی کنونشن، لاپتہ افراد کی لواحقین کا شرکت

260

سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں پیر کے روز پریس کلب کے احاطے میں جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک کنونشن کا انعقاد کیا گیا،

اس کنونشن میں بلوچستان، سندھ، خیبر پختون خواہ سے جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کی لواحقین نے بھی کی.

اس کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ریاست پاکستان بنیادی آزادیوں، انسانی حقوق کا احترام کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کے لیے اقدامات اور یونیورسل ڈکلیریشن فار ہیومن رائٹس کا احترام کرنے کے لیے ناکافی اقدامات کر رہی ہے۔

جبری گمشدگی ایک انتہائی تشویشناک مسئلہ ہے، یہ ایک سنگین جرم ہے اور انسانیت کے خلاف جرم کا درجہ رکھتا ہے۔ ہم جبری گمشدگیوں کی روک تھام اورجبری گمشدہ کرنے والوں کو گرفت سے بالاتر سمجھنے کی سوچ کو چیلنج کرنے کے لیے مستعد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر شخص کو جبری طور پر گمشدہ نہ ہونے کا حق حاصل ہے۔ ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہر گمشدہ کیے جانے والے کے لواحقین کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے گمشدہ افراد کے گمشدہ ہونے اور انکے انجام کی بابت معلومات کا حق ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ جبری گمشدگیاں دراصل آزادی اظہار پر پابندی لگانے کا زریعہ ہے۔ ان پابندیوں کا مقصد پاکستان میں جاری گلوبل سرمایہ داری کے پروجیکٹوں اور مقامی سطح پر وسائل کی لوٹ مار اور انہیں مقامی آبادی کے دسترس سے چھیننے کے خلاف ہر قسم کے عوامی احتجاج کو کچلنا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ یہی پابندیاں سندھی، بلوچ، پشتون، سرائیکی، گلگتی، کشمیری اقوام میں احساس محرومی کو علیحدگی پسندی میں تبدیل کر رہی ہیں اور اہل پنجاب اور اہل تشیع کو گھٹن کا شکار اور احساس محرومی کا شکار بنا رہی ہیں۔

پاکستان میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں آئین کی پامالی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کو قومی سلامتی اور دہشت گردی کی آڑ میں غیر اعلانیہ معطل رکھنے کے عمل نے تعلیم، صحت، ابلاغ، مواصلات جیسے شعبوں کو بھی احساس محرومی کا سبب بنا دیا ہے۔

یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ ریاست پاکستان
۱۔ ملک بھر میں جاری فوجی و نیم فوجی آپریشنوں میں گمشدہ کرنے کے سلسلے کو فل فور انسانیت کے خلاف جرم قرار دے کیونکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی برائے گمشدہ افراد کے آرٹیکل (۱) کے مطابق کسی بھی فرد کو جبری گمشدہ نہیں کیا جانا چاہئے۔

۲۔ قومی سلامتی، ملکی سلامتی، دہشت گردی، علیحدگی پسندی کے نام پر پاکستان اور اسکے زیر انتظام علاقوں میں جبری گمشدگی کا سلسلہ بند کیا جائے کیونکہ اقوام متحدہ کی جبری گمشدگی کمیٹی کے آرٹیکل (۱) کے مطابق کسی بھی اضافی صورتحال جیسے جنگ، جنگ کے خطرے، اندرونی سیاسی عدم استحکام یا ایمرجنسی کے نام پر جبری گمشدگی کو جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا۔

۳۔ عدالتوں کا کام انصاف فراہم کرنا ہے۔ دہشت گرد مخالف قوانین، فوجی آپریشنوں، امن و عامہ کو جواز بنا کر جبری گمشدہ افراد کے مقدمات کو پہ درپہ جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیموں اور پولیس، مقامی انتظامیہ، رینجرز، ایف سی، خفیہ اداروں کی رپورٹوں کا انتظار اور انکے انکار کو دس دس سال گمشدگی پر انصاف کی فراہمی میں تعطل قرار دینے پر قانون سازی کی جانی چاہئیے کیونکہ اقوام متحدہ کی کمیٹی برئے جبری گمشدگی کے آرٹیکل (۲) کے تحت حراست، نظربندی، اغواء یا کسی بھی شکل میں ریاستی اداروں کے ایجنٹ یا ایسے فرد یا یا آمادگی کے زریعے کسی شخص کو آزادی سے محروم کرنا اور اس کے بعد اس بات سے ہی انکار کرنا کہ اس شخص کو محروم کیا ہے یا جبری گمشدہ فرد کے انجام یا اسکے حراستی مقام کو چھپانا بھِی جرم قرار دیا جائے۔

۳۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گزشتہ ۲۰ سالوں سے جاری جبری گمشدگیوں کا سلسلہ اس بات کا متقاضی ہے کہ جبری گمشدگیوں کے تمام واقعات کی جانچ پڑتال کےلیے ایک ٹرتھ اینڈ ریکنسیلیشن کمیشن قائم کیا جائے تاکہ ان ماورائے انسانیت اقدامات کی جانچ پڑتال ہو کیونکہ اقوام متحدہ کی کمیٹی برئے جبری گمشدگی کے آرٹیکل (۲) کے تحتاس بات کا انتظام کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے کہ افراد یا گروہ بناء کسی اجازت کہ ریاست کی امداد یا مرضی سے جبری گمشدگیاں کریں تو انہیں انصاف کے کٹھرے میں کھڑا کیا جائے۔

۴۔ جبری گمشدگی کو قانونی طور پرسنگین جرم قرار دیا جائے اور اسے انسانیت سوز جرم کے برابر تسلیم کیا جائے۔

۵۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایکشن ان ایڈ آف سویلین پاور کے قانون کے تحت اپنے آپ کو جبری گمشدگیوں کی معلومات سے مبرا قرار دے کر ریاستی اداروں اور شہریوں کے بیچ وہ نرم گوشہ ختم کر دیتی ہیں جس کے زریعہ آزادی اظہار کی بھی گنجائش عام حالتوں میں موجود رہتی ہے۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی برئے جبری گمشدگی کے آرٹیکل (۶) کے تحت ہر وہ شخص جو جبری گمشدگی کرنے، اس کا حکم دینے، اس کی تجویز دینے یا راغب کرنے یا اسکی کوشش کرنے میں ملوث ہو وہ جبری گمشدگی کرنے میں ملوث قرار دیا جائے۔ جبری گمشدگی کی معلومات کو چھپانے یا اسے نظر انداز کرنے کا عمل بھی جبری گمشدگی کا جرم قرار دیا جائے۔

۶۔ یہ اجلاس ہر سال جبری گمشدی کے خلاف ملک گیر سطح پر احتجاج کو منعقد کرنے اور بڑے پیمانے پر موبیلائیزیشن کی کوشش کریں گے تاکہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند ہو اور بنیادی انسانی حقوق بحال ہوں۔