تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے – ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کا مطالبہ

180

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ڈیفنس آف ہیومن رائٹس نامی تنظیم کے زیر اہتمام جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر ایک قومی مشاورتی اجلاس منعقد کیا گیا۔

اجلاس میں پاکستان بھر سے سیاسی رہنماوں، وکلا، انسانی حقوق کارکنان، جبری گمشدگی کے متاثرین اور ممبران شریک ہوئے۔

اجلاس کا مقصد پاکستان سے جبری گمشدگی جیسے گھناؤنے جرم کے خاتمے کیلئے پرحکمت راہیں تراشنا تھا۔

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس پورے پاکستان کے لاپتہ افراد کے لیے جدوجہد کر رہی ہے جبکہ کچھ دیگر تنظیمیں صوبائی سطح پر کام کر رہی ہیں۔ اجلاس کا مقصد ان تمام تنظیموں کے تجربات کو مجتمع کر کے ایسی سفارشات مرتب کرنا تھا جن کے ذریعے جبری گمشدگی جیسے بدترین جرم کو پاکستان سے ختم کیا جا سکے۔

اجلاس کے شرکا نے جبری گمشدگیوں کے مکمل خاتمے کیلئے اپنی اپنی تجاویز پیش کیں۔ قومی مشاورتی اجلاس میں مرتب کردہ سفارشات کی نقول قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران، انسانی حقوق کی کمیٹیوں، تمام ہائیکورٹس، آرمی چیف اور خفیہ اداروں کے سربراہوں کو فراہم کی جائیں گے۔

اجلاس میں مندرجہ زیل سفارشات مرتب کی گئیں:

تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے، اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو اسے عدالتوں کے روبرو پیش کرتے ہوئے فیئر ٹرائل کا موقع فراہم کیا جائے بصورت دیگر بے گناہوں کو فوری رہا کیا جائے۔

جبری گمشدگی کے ذمہ دار اہلکاروں کی دست درازی کو روکنے کیلئے قانون سازی کی جائے اور جبری گمشدگی کو جرم قرار دیا جائے۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم کردہ 2010 کے پہلے کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔لاپتہ افراد کا موجودہ کمیشن اپنی ناقص کارکردگی کی بنا پر غیر فعال ہو چکا ہے، کمیشن کے سربراہ اپنی دوسری ذمہ داری بحثیت چیئرمین نیب سر انجام دے رہے ہیں لہٰذا اس کمیشن کو فوری تحلیل کیا جائے۔

موجودہ کمیشن کی ناقص کارکردگی کے ازالہ کے لیے سپریم کورٹ لاپتہ افراد کے مقدمات کی ازسرنو سماعت شروع کرے۔ صوبائی ہائیکورٹس اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے لاپتہ افراد کے کیسوں میں کچھ مستحسن فیصلے دیئے گئے جن میں حراستی مراکز کو ختم کرنے، آرمی کورٹ کے تین سو مبینہ ملزمان کی رہائی، لاپتہ افراد کے ورثا کو معاوضے کی فراہمی اور ذمہ داروں پر جرمانے عائد کرنا شامل ہیں۔

ان عدالتی فیصلوں کا احترام کیا جائے اور حکومت مذکورہ عدالتی فیصلوں کے خلاف دائر کردہ اپیلیں واپس لے، اگر حکومت کی جانب سے ان اپیلوں کو واپس نہیں لیا جاتا تو پھر سپریم کورٹ انہیں مسترد کرے۔

حراستی مراکز، تھانوں، بحالی سینٹرز کے نام پر بنائے گئے اداروں میں روا رکھے گئے ظلم و ستم کو بند کیا جائے۔ وہاں سے جعلی پولیس مقابلوں اور پراسرا بیماریوں کے نام لاشوں کا سلسلہ روکا جائے۔

اقوام متحدہ کے 2010 کے کنونشن برائے جبری گمشدگی کو من و عن تسلیم کیا جائے، اس پر دستخط کر کے اسکی توثیق کی جائے۔اقوام متحدہ میں اگلے سال 2022 میں پاکستان کا انسانی حقوق ریکارڈ چیک کیا جائے گا، پاکستان پچھلے بارہ سال سے اس کے اجلاسوں میں جبری گمشدگی کیخلاف قانون پاس کرنے کی یقین دہانی کروا رہا ہے، جبکہ اصل صورتحال اسکے برعکس ہے اور تاحال قانون پاس نہیں کیا گیا۔

قانون برائے انسدادِ جبری گمشدگی کو فوری قومی اسمبلی و سینیٹ سے منظور کروا کے نافذ العمل کیا جائے تاکہ 2022 کے یو پی آر میں پاکستان کی پوزیشن مستحکم ہو سکے۔

ڈی چوک پر دھرنے کے نتیجے میں وزیر اعظم نے بلوچستان سے لاپتہ تین افراد کے ورثا سے ملاقات کی ہے اور گمشدہ افراد کی بازیابی کی یقین دہانی کروائی ہے۔ہمارامطالبہ ہے کہ وزیر اعظم کو پورے پاکستان کے لاپتہ افراد کی نمائندہ قیادت سے ملاقات اور انکے ساتھ اظہار یکجہتی کرنی چاہئے۔

شرکا نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں شہریوں کو جبری غائب کرنے پر آج تک کسی کو سزا نہیں ملی۔ اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان سے جبری گمشدگی جیسے گھناونے جرم کے خاتمے تک جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔