تبدیلی کیلئے جنگ کا تقاضا – عبدالہادی بلوچ

202

تبدیلی کیلئے جنگ کا تقاضا

تحریر: عبدالہادی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بہت شروع سے یہ کیفیت چلتا آرہا ہے کہ کسی نظام یا صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئے جنگ کی ضرورت پیش آئی ہے۔ گزرتے ادوار میں جیسے بھی نظام اور رجحان وجود رکھتے تھے خواہ وہ اچھے یا معقول نوعیت کے رہے ہوں یا برے و غیر معقول ان کو ان کے برعکس یعنی اچھے کو برے اور برے کو اچھے و معقول حالت میں تبدیل کرنے کیلئے جنگ و تشدد کی ضرورت پڑتی رہی ہے۔ اب تک کوئی ایسی کیفیت نہیں گذرا ہے جو کہا جائے کہ وہ اپنے آپ تبدیل ہو گیا ہو اپنے موجودہ حالت کے برعکس، بلکہ ہر شے کو تبدیل کرنے کیلئے یا اسے پیدا کرنے یا بنانے کےلئے انسانی توانائی اور کوشش ضروری ہوتی ہے، لیکن یہاں بحث صرف انسانی ارتقاء میں اسے درپیش رجحانات نظام اور حالات کے بارے میں ہے کہ انہیں تبدیل کرنے کیلئے انسان کو کس چیز کا تقاضہ درپیش ہوتا آرہا ہے۔

چنانچہ، وہ جنگ و تشدد ہے، جی ہاں جنگ ہی ہے جو اکثر برے اور نا معقول نظام اور صورتحال کی تبدیلی کےلئے ضرورت پڑتی آئی ہے۔

اس کے علاوہ، انسان کی فطرت ایسی ہے کہ وہ ایک اچھی اور معقول شے یا خاکہ و ڈھانچہ کو بھی اپنی حرص و ہوس اور برے ارادوں سے اسے ناقابل قبول کیفیت میں تبدیل کرنے کیلئے بھی تشدد اور جنگ کا ذریعہ استعمال کرتا آرہا ہے۔ جب ہم غور وفکر کریں تو ایسے کئی مثال ملیں گے ہمیں جن میں چند نظیر میں پیش کررہا ہوں۔

یورپ میں پوسٹ کالونیلزم کے دوران جتنے بھی اور جیسے بھی نظام اور حالات و کیفیات رہے تھے ان کو تبدیل کرنے کیلئے جنگ ہی کی ضرورت پڑ ی۔ مثلا، فرانس میں نصف صدی سے چلتی ‘قدیم حکومت ‘ (ancient regime) فرانسیسی انقلاب میں مختلف مراحل کے جنگوں سے ہی تبدیل ہوگئی، اور آج ہم فرانس کو پانچ سب سے بڑے سوپرپاور اور انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک دیکھتے ہیں۔ انہی جنگوں کے دوران ایک اور انقلابی جنگ کے نتیجے میں ریاستہائے متحدہ امریکہ برطانوی نوآبادیاتی نظام سے آزاد و خودمختار ہو گیا تھا۔ اور یہ بھی کسی طاقتور کے خلاف جنگ کے ذریعے ہی ہوا تھا۔

ان کے علاوہ، بیسویں صدی میں دو عظیم جنگوں کی مثال ہمارے سامنے ہیں، جس میں پہلی جنگ عظیم میں مختلف محاذوں پر بڑے پیمانے پر ممالک کے درمیان لڑائیاں ہوئیں اور جنگوں کے اثرات نے بہت کچھ بدل دیئے جن میں اکتوبر 1917ء کی روسی انقلاب ہو یا مرکزی قوتوں بشمول سلطنت عثمانیہ کا اتحادی قوتوں کے سامنے ہھتیار ڈالنا ہو یہ سب جنگ کی طاقت اور ذریعے سے ہوئیں، کسی کی فتح اور کسی کی شکست سب جنگی ذرائع کے سبب تھے۔ جبکہ، دوسری جنگ عظیم کا آغاز نازی جرمنی (ہٹلر کی حکومت) نے اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے غرض سے ستمبر 1939ء میں پولینڈ پر حملہ کر کے جنگ کے ذریعے کیا تھا۔ اس تبدیلی یا عمل کےلئے ہٹلر کو معلوم تھا کہ بغیر جنگ کے یہ نہ ممکن ہے۔ لہذا، نازی حکومت کی اس عمل نے کئی دوسرے جنگ اور حملے پیدا کیے نہ کہ اس کے عوض دوسرے ممالک نے پھول برسائے۔ انہوں نے بھی جوابی کارروائی میں جنگ ہی کی تھی کیونکہ جنگوں اور تشدد کی تبدیلی کےلئے جنگ ہی ممکن تھا۔

مزید براں، اسلامی تاریخ کے جنگی مراحل پہ اگر نظر دوڑائی جائے تو بھی وقت اور حالات کے تناظر میں گزرتے نظاموں اور حالات کو تبدیل کرنے کیلئے جنگ کی ہی ضرورت پیش آئی تھی۔ مثلا، یہودیوں اور مشرکین نے جب رسول اللہ(ص) اور صحابہ کرام پر مسلسل زیادتیاں کیں، انہیں مکہ میں رہنے کے سمیت لگا تار مدینہ میں بھی چین سے جینے نہیں دیا، تو رسول اللہ(ص) جیسے انسان کو بھی یہودیوں اور مشرکین کے خلاف کئی بار جنگ کا اعلان کرنا پڑا کیونکہ آپ ص کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ “جب گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنی پڑتی ہے” یعنی کہ اسلامی تبدیلی جنگی حکمت عملی اور جنگ کے فیصلے سے ہی ممکن ہے۔ لہذا، ایک مثبت یا معقول تبدیلی کےلئے ضرورت پڑنے پر جنگ کے ذریعے ہی علاقوں کو فتح کیا جن میں فتح مکہ ہو یا فتح خیبر وغیرہ۔ یہ سب اقدامات اپنی دفاع میں اور اسلامی تبدیلی کےلئے آپ نے پھول برسانے سے نہیں بلکہ جنگ کے ذریعے کیے۔ حالانکہ آپ نے پھول برسا کے اور پرامن طریقے سے بہت کوشش کی لیکن جب ضرورت جنگ کی آئی تو آپ نے جنگ کا فیصلہ کیا۔

علاوہ ازیں، حضرت عمر (رضی) کے دور خلافت میں تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے صرف اور صرف جنگ کے ذریعے ہی تبدیلی لانے کی کوشش کی۔ یہ بات الگ ہے کہ کیسی تبدیلی، یہ مذہبی عقیدوں پر منحصر ہے کہ چونکہ الگ الگ مذہب والے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں اس بارے میں، لیکن اسلامی نقطہ نظر میں اس نے اسلام پھیلانے کیلئے جو ایک انصاف اور خوشحال پر مبنی معاشرہ کی بنیاد ڈالنے کا تقاضا کرتا ہے، جو کہ بنیادی طور پر ایک مثبت تبدیلی کی دلیل ہے۔ لہذا، اس کےلئے آپ رضی نے ضرورت پڑنے پر جنگی فیصلہ ہی لیا تھا۔

محمد بن قاسم اور راجہ داہر کی مثال لے لیں تو راجہ داہر جو سات سو صدی میں سندھ کے راجہ رہے تھے جس پر محمد بن قاسم اسلامی نقطہ نظر میں اسلام پھیلانے کے غرض سے حملہ آور ہوئے، جبکہ راجہ داہر جفاکش و بہادری سے سندھ کی دفاع کرتے ہوئے اس کا مقابلہ کرکے اپنے ساتھیوں سمیت جانبحق ہوئے۔ کہنے کا مطلب ہے کہ محمد بن قاسم اپنے کسی مثبت تبدیلی کیلئے اس پر جنگ کرتے ہوئے سندھ فتح کرتا ہے جبکہ راجہ داہر بھی اپنے دفاع میں جنگ ہی کرکے مارا جاتا ہے۔ لہذا، یہ دونوں اقدام بنیادی طور پر اسلامی تبدیلی اور دفاعی تبدیلی ہی تھے۔ دفاعی تبدیلی کا مطلب کسی دوسرے کی تسلط سے بچنے کی صورتحال کی تبدیلی ہے۔

چنانچہ، ایسے کئی مثالیں اور بھی ہیں جو اچھے اور برے نظام اور حالات کو تبدیل کرنے کیلئے محض جنگ کو ہی ذریعہ مان کر اس کی وکالت کرتے ہیں۔ بغیر جنگ کے ایسے کیفیات کی تبدیلی ناممکن ہے۔ اگر کوئی انسان و شخص سوچتا ہے کہ وہ ایسے نظام اور حالات کو جیسے کسی نوآبادیاتی نظام کو یقینی سامراج و استعمار پہ پھول برسا کے یا اسے بیان بازی اور پرامن احتجاجی مظاہروں سے تبدیل کر سکتا ہے تو یہ اس کی بھول اور حماقت ہے۔

مندرجہ بالا منطق کے تناظر میں بلوچ قوم کو یہ زہن میں رکھنا چاہیے کہ جنگ یا مسلح مزاحمت ہی واحد ذریعہ ہے جو سامراج و نوآباد پاکستانی فوج کو بلوچ سرزمین سے بے دخل کر کے اس پر مسلط موجودہ نوآبادی کو ایک آذاد و خودمختار ریاست اور روشن و خوشحال معاشرہ میں تبدیل کرسکتا ہے۔ لہذا، بلوچ قوم اپنے ذاتی اور انفرادی خواہشات و مفادات کو ایک طرف رکھ کر بلوچ قومی و آذادی کی مسلح تحریک میں بحر لے کر ایک مثبت تبدیلی و بنیاد رکھنے کےلئے اپنے قومی و اجتماعی فرض اور کردار ادا کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔