بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ شہداء کی یاد میں پارٹی کا ماہانہ آن لائن اجلاس ڈائسپورہ کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس سے ڈاکٹر نسیم بلوچ، نبی بخش بلوچ، حکیم بلوچ، اصغر بلوچ، ناکو ستار، گہرام بلوچ نے خطاب کیا اور پارٹی کے کارکنوں نے کثیر تعداد میں حصہ لیا۔
آن لائن اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر نسیم بلوچ نے فروری کے مہینے کے بلوچ شہداء کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ 1948سے ہماری غلامی کے آغاز سے فروری کے مہینے میں بھی شہداء کی ایک طویل فہرست ہے۔ شہید یاسمین، شہدائے توتک، شہید محبوب واڈیلہ، شہید ماسٹر رحمان عارف سے لے کر آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ بلوچ جبری گمشدگی کا شکار اور قتل کیے جارہے ہیں۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا بلوچ انصاف پر مبنی اپنی قومی آزادی کے لئے ایک جہدمسلسل کر رہا ہے، لیکن پاکستان ردعمل میں بربریت سے بلوچ قوم کی نسل کشی میں مصروف ہے۔اس کے علاوہ پاکستان نے ہمیشہ بلوچ قوم سے بات چیت کے نام پر دھوکہ اور فریب سے کام لیاہے۔ بابو نوروز سے بات چیت ہو یا آج جبری گمشدگی کے شکارافراد کے تنظیم کے سربراہاں سے حالیہ بات چیت۔ اس میں چند لوگ ضرور رہا کیے جاتے ہیں۔ اگر دو افراد رہا کیے جاتے تو پاکستان بلوچ کے خلاف بربریت یا دباؤ برقرار رکھنے کے لیے چار افرا د جبری گمشدگی کا شکاربنا رہا ہے۔
انہوں نے کہا ہمارا اور پاکستان کا رشتہ قابض اور مقبوضہ کا ہے۔ جس طرح میں نے ردعمل کی بات کی، جب بھی ریاست ردعمل کامظاہرہ کرتاہے تویہ خود ثابت کرتاہے کہ ایک عمل ہو رہاہے، کیونکہ ردعمل ریاست کی کمزوری کو ظاہرکرتا ہے۔ عمومی طورپر ریاست ردعمل نہیں بلکہ جمہوری، قانونی یا دستوری طور پر ایسے معاملات کو نمٹاتے ہیں۔ لیکن بلوچ جدوجہد نے پاکستان کو حواس باختہ کر دیا ہے۔ بلوچ قومی تحریک نے یکساں طور پر بلوچستان کے اندر اور ڈائسپورہ کی صورت میں ریاست پاکستان کے اوسان خطا کر دیئے ہیں۔ اس لیے پاکستان ہماری تحریک کے ردعمل میں غیرجمہوری، غیرقانونی اور بربریت سے ہماری نسل کشی کررہاہے۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا ہماری پیش رو لوگوں نے جس جدوجہد کو ہمیں منتقل کیاہے، اسے بہتر بنانا، اسے منظم کرنا اور آگے بڑھانا ہماری قومی ذمہ داری ہے تاکہ ہم اسے اپنی آئندہ نسلوں میں منتقل کرسکیں۔ یہ سیاسی ارتقا اورتحریک کا باقاعدہ حصہ ہے۔ کیونکہ لوگ آتے جاتے ہیں، شہید ہوتے ہیں، قید ہوسکتے ہیں، طبعی موت مرسکتے ہیں، لیکن جدوجہد ایک مسلسل عمل ہے، اسے ہم بہتر صورت میں ایک اور نسل کو منتقل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو آنیوالے لوگوں کے زیادہ آسانی ہوگی۔
بی این ایم نارتھ امریکہ کے کارکن نبی بخش بلوچ نے کہا کہ ہر مہینے بلوچ شہداء کو یاد کرنا، تسلسل سے پارٹی کا ماہانہ آن لائن اجلاس منعقد کرنا، اپنی کمزوریوں، خامیوں اور خوبیوں کو زیربحث لانا ایک مثبت عمل ہے، اسے جاری رہناچاہئے۔
انہوں نے کہا بلوچ شہدا امرہیں۔ آج دنیاکے جس کونے میں بلوچ تذکرہ ہوتاہے یہ بلوچ شہداکے قربانیوں کی بدولت ہے۔بلوچستان کے اندرپاکستان نے ہماری لیے سیاسی جہدوجہد کے لئے تمام راستے مسدود کردیئے ہیں لیکن ڈائسپورہ کی سطح پر ہمیں زیادہ مواقع حاصل ہیں۔ ہمیں بلوچ قومی مقدمہ کو عالمی برادری کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب ڈائسپورہ سے منسلک لوگ خوف کا شکار ہوئے تو یہ ریاست اور ریاستی گماشتوں کی کامیابی ہوگی۔ ہم جہاں بھی ہوں، ہم جس بھی فورم میں موجود ہوں ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ بلوچ قومی تحریک عالمی اصولوں یا اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے۔
نبی بخش بلوچ نے کہا بلوچستان میں انسانی حقوق کے گھمبیرمسائل ہیں۔ یہ آئندہ بھی ہونگے لیکن ہماری جدوجہد قومی آزادی کے لیے اور قومی آزادی کا مسئلہ انسانی حقوق کے مسئلے سے زیادہ سنگین ہے۔ جس طرح ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا تھا کہ ہر بلوچ جہد کار بلوچ قوم کا سفیر ہے، ہمیں اس بات پر غورکرنا چاہئے کہ ایک سفیر کی حیثیت سے ہمارے کیا فرائض ہیں؟ اس لیے ہمیں ایک کیڈر کی حیثیت سے اپنے اپنے علاقوں میں پارلیمانی ممبراں، مقامی حکومتی اہلکاروں یا پارٹی اور تنظیموں کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیئے۔ یہاں ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس عمل میں ہمیں جلد نتیجہ کا توقع نہیں رکھنا چاہیئے لیکن مسلسل اورمنظم رابطہ کاری سے ضرور رسپانس ملتا ہے، اور یہ میرا ذاتی تجربہ بھی ہے۔
آن لائن اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ناکو ستارنے کہا اگر بیس سالہ سیاسی سفر کا جائزہ لیں تو ہمیں بلوچستان کے ہرفرد میں داستان نظرآتاہے۔ طویل اورختم نہ ہونے والی داستان۔ اس سفر میں شہداء ہوں، جہد کاروں کی پندوخواری و بزگی، ہماری بہنوں کی طویل جدوجہد اور آنسو، آج ہم اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ بلوچ آزادی کی جدوجہد دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکا ہے۔ یہ بلوچ کی تکالیف، قربانی، آنسو اور قربانیوں کا مرہون منت ہے۔
انہوں نے کہا آج پوری دنیا اس بات سے آشنا ہے کہ بلوچ قوم قومی آزادی کے لیے کمربستہ ہے اور بھر پور قومی شمولیت سے ہماری جدوجہد آگے بڑھ رہاہے۔
ناکو ستار نے کہا چونکہ میں نے رحمان عارف اورمحبوب واڈیلہ کے ساتھ اکھٹا کام کیاہے، دونوں انتہائی مضبوط کمنٹمنٹ رکھنے والے اور بہادر ساتھی تھے۔تنظیمی امور کے لئے میں کبھی ان کے منہ سے لفظ ”نہ“ نہیں سنا، ہمیشہ ہرقسم کے حالات میں کام لیے تیار تھے۔ قومی جدوجہد کے علاوہ شہید رحمان عارف ایک استاد، شاعر، مقرر اور ادیب بھی تھے۔ بلاشبہ دونوں عظیم جہدکار تھے۔ آج وہ موجود نہیں ہیں لیکن انہوں نے اپنے لہو سے لکیر کھینچ لی ہے وہ ہماری لیے چراغ راہ کی مانند ہیں۔
انہوں نے کہا جب ہم شہد اکے فکر و نظریہ پر بات کرتے ہیں تو ان کا مقصد ہمارے ہاتھ ہیں۔ اسے منزل تک پہنچانے کی ذمہ داری ہماری کندھوں پر ہے۔ یہ ہم پر منحصرہے کہ ہم شہداکے مشن کو پائے تکمیل تک پہنچائیں، کیونکہ مقصد و منزل کا تعین ہوچکا ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے ہمیں سوچنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ناکو ستار بلوچ نے کہا آج بلوچ میڈیا اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے۔ خصوصا ریڈیو زرمبش بھرپور طریقے سے کام کر رہا ہے۔ان کا کام یقینی طور پر قابل ستائش ہے۔ چند تکنیکی کمزوریاں ضرور ہیں۔ متعلقہ دوستوں کو اس جانب ضرور توجہ دینا چاہیئے۔
انہوں نے کہا سیاست میں اسپیس ہونا چاہئے۔ نہ صرف پارٹی ممبر بلکہ تحریک کے ہر سطح کے دوزواہ اور ہمدرد کے لیے موقع ہوناچاہیے ۔ میری رائے میں ہمیں شعوری طور پر لوگوں کو موقع مہیا کرنا چاہیے کیونکہ اس دور میں سننے کی صلاحیت کم محسوس ہوتا ہے۔ ہمیں اس کمی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا ہماری جدوجہد اور سرگرمیاں واقعات پر نہیں۔ ان میں نہ ٹوٹنے والی تسلسل کے ساتھ ہونا چاہیے کیونکہ عموما دیکھا جاسکتاہے کہ ہمیں واقعات پر سرگرمیاں تیز ہوتی نظر آتی ہیں۔ دوست اختلاف کرسکتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے پاس مستقبل کے لیے منصوبہ کی کمی ہے۔
بی این ایم جرمنی زون کے جنرل سیکریٹری اصغر بلوچ نے کہا کہ لوگوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنانا کسی بھی جابر ریاست کی ایک نفسیاتی حربہ ہوتا ہے۔ ایک مرحلے پر وہ لوگوں کو قتل کرکے لاشیں پھینکتاہے، اجتماعی قبروں میں دفناتا ہے لیکن ایک بڑی تعداد کو اپنے حراستی مراکز میں رکھتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ اپنے مدمقابل یا دشمن کے خلاف ایک نفسیاتی حملہ ہوتاہے، جس طرح پاکستان ہمیں اپنا دشمن مانتا ہے اور یقینا پاکستان ہمارا دشمن ہے۔ اس کے خلاف ہماری ایک قومی جنگ چل رہی ہے۔اس نفسیاتی حملہ یا حربہ کے پیچھے یہ عوامل یا سوچ کارفرما ہوتا ہے کہ آپ آہستہ آہستہ اپنے لوگوں کو بھول جائیں اور یہ عمل اس حدتک پہنچ جاتاہے کہ جبری گمشدگی کے شکار افراد کے خاندان بھی اپنے پیاروں کو بھو ل جاتے ہیں اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اب ان کا پیارا نہیں رہا یا وہ دشمن کے زندان میں مرچکا ہے۔ پولیٹیکل سائنس کے اصطلاحات میں اسے ”فروزن ڈیتھ“ frozen death کہتے ہیں۔”فروزن ڈیتھ“ یہ ہے کہ آپ کا آدمی زندہ یا مردہ ہے لیکن آپ اپنے نفسیات میں اسے مرا ہوا تصور کرتے ہیں۔ لاطینی امریکہ، برازیل وغیرہ میں ایسے تجربات ہوچکے ہیں۔ حتیٰ کہ وہاں حکومتوں نے جبری گمشدہ لوگوں کے چھوٹے بچوں کو ریاستی سرپرستی میں لے کر ان کی پرورش تک کی، جہاں تک مجھے یاد ہے پاکستان نے بھی ایسی کوشش کی ہے کہ جبری گمشدہ افراد کے بچوں کو تعلیم و تربیت دیں۔ اس تیکنیک سے ریاست کا مقصد بچوں کی ذہن سے یہ فکر ختم کرنا، پاکستانی یا کونونیل ارتقا سے گزارنا ہے۔ جتنے بھی آرمی کے سکول ہیں اگر ان بچوں کو ان میں تعلیم دی جائے تو آسانی سے بلوچ نظریہ کو چھوڑ سکتاہے اور آپ فروزن ڈیتھ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اصغربلوچ نے کہا کہ ہمیں بحیثیت پارٹی یعنی بلوچ نیشنل موومنٹ یا بحیثیت قوم اپنے جبری گمشدہ افراد کو زندہ رکھنا ہے۔ ہماری انسانی حقوق کے اداروں کو ڈیٹا اکٹھا کرنا چاہئے اور پارٹی کو ہرسطح پر یہ کام کرنا چاہئے۔ جبری گمشدہ افراد کو تصویر کی صورت میں ڈیٹا کی صورت میں سامنے لائیں۔ انہیں پروگراموں کی صورت میں اور اپنے نفسیات میں زندہ رکھنا چاہئے تاکہ ہمارے لوگ فروزن ڈیتھ سے بچ جائیں۔
آن لائن اجلاس سے خطاب کرتے گہرام بلوچ نے کہا اصغر بلوچ نے آج جس نقطے کی جانب متوجہ کردیاہے یہ ہماری بحیثیت پارٹی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس شعبہ میں زیادہ کام کریں۔ جبری گمشدگی کے شکار افرادکے لواحقین سے مربوط ہوجائیں اور ڈیٹا جمع کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ضرور ڈائسپورہ کی سطح پر کام کرنا چاہئے لیکن ہماری جدوجہد کا اصل مرکز سرزمین ہے۔ سرزمین پر جاری جدوجہد سے کٹ کر ڈائسپورہ کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتا ہے اورہمیں کل وقتی کارکن کی صورت میں کام کرنا چاہئے اور ہمیں پارٹی میں اپنی ذمہ داریوں کو اپنی فرض کی صورت میں نبھانے کی ضرورت ہے لیکن پارٹی میں ٹیم ورک کی صورت میں کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پارٹی امور انفرادی صورت میں کسی طور پر انجام نہیں پاتے ہیں۔