بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4256 دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل پارٹی کے میرعبدالغفار قمبرانی، بی ایس او کے شکور بلوچ، کامریڈ اسرار بلوچ اور خواتین کی بڑی تعداد نے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں بلخصوص بلوچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی داستان بہت طویل ہے۔ بلوچستان پر غاصبانہ قبضے سے لیکر تاحال جاری بربریت اور ظلم و ستم میں ہزاروں بلوچوں کو شہید کیا گیا اور ہزاروں فرزندوں کو جبری طور لاپتہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 2001 سے اب تک بلوچوں کیخلاف فوجی آپریشن کیے گئے لیکن بلوچستان کے اس طویل بحران میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ بلوچ خواتین و مرودوں کو شانہ بشانہ ریاستی اداروں کے خلاف پرام ند جدوجہد میں شامل ہوئیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے بلوچوں کی بازیابی کے لیے بلوچ خواتین کا کردار دن بدن مضبوط ہوتا جارہا ہے، بلوچوں کے حقوق کی پرامن جدوجہد میں چاہے وہ مظاہرے، دھرنے، ریلیاں، لانگ مارچ ہو یا بھوک ہڑتالی کیمپ بلوچ خواتین ہر پلیٹ فارم پر اپنی موجودگی کا بھر پور احساس دلاتی ہے۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں ہونے والے اغواء، ماورائے عدالت قتل عام اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف بلوچ عوام آواز بن گئی ہے لیکن جہاں ایک طرف بلوچ خواتین شمولیت نے بلوچستان کے پرامن جدوجہد کو ایک نیا موڑ دیا ہے وہی ریاستی اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کے بلوچوں کے خلاف رویوں اور حربوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور اس ملک میں بلوچ خواتین اپنے اور اپنے پیاروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پہ سراپا احتجاج ہیں تو ریاست کا فرض ہے کہ وہ صرف ان کے مسائل کو سنیں بلکہ ان کے تدارک کیلئے عملی اور ٹھوس اقدامات بھی کریں۔