بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے پاکستان میڈیکل کمیشن کے فیصلے کو مسترد کردیا

316

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (بساک) نے بلوچستان کے تین میڈیکل کالجز کے انسپکشن کے حوالے سے پاکستان میڈیکل کمیشن کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ بلوچستان وسائل کے حوالے سے پاکستان کا امیر ترین صوبہ ہونے کے باوجود گذشتہ ستر سالوں سے بُنیادی ضررویاتِ زندگی سے محروم ہے۔

کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رہنماوں کا کہنا تھا کہ دوسرے شعبوں کے ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صلاحیت اور قابلیت کے باوجود یہاں کے نوجوان مواقع نہ ہونے کے سبب انتظامی بنیادوں پر کسی اعلیٰ مقام تک پہنچنے سے قاصر ہیں جبکہ محدود وسائل کے ساتھ تعلیم سے آج سب سے زیادہ مخلص بلوچ نوجوان ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جس کی واضح مثال سال بھر میں اپنے تعلیمی حقوق کی خاطر جدوجہد کرنے والے طلباء ہیں ۔

ہمارا مقصد پاکستان میڈیکل کمیشن کی طرف سے بلوچستان میں موجود تین میڈیکل کالجز کے حوالے سے اس فیصلے پر ہے جو 17 مارچ کو جاری کی گئی ہے۔ اس فیصلے کے مطابق تین مہینے کے اندر ان کالجز کی انسپکشن ہوگی اگر یہ کالجز پاکستان میڈیکل کمیشن کے بنیادی شرائط سے پورا اترے تو انکو پی ایم سی میں رجسٹر دی جائی گی اگر بنیادی شرائط پورا نہ ہوئے تو ان کالجز کو بند کیا جائے گا اور ان کالجز کے طلبہ کو مئی جون میں ایک اسپیشل امتحان لیا جائے گا۔ اس امتحان سے کامیاب شدہ طلبہ ہی پی ایم سی میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اس فیصلے طلبہ کے اندر ایک تشویش کی لہر پیدا ہوچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ طلبہ شدید ذہنی کوفت کے شکار ہیں۔ آج کی پریس کانفرنس کی توسط سے ہم پاکستان میڈیکل کمیشن، صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے ذمہ داران کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے میڈیکل کالج گنے چنے ہیں جہاں سے بلوچ طالب علم میڈیکل تعلیم سے مسفید ہورہے ہیں اور اِس طرح کے اقدام طالبعلموں کے ساتھ ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ ہم تمام مقتدر قوتوں سے اپیل کر تے ہیں کہ بلوچستان کے میڈیکل کالجز کو جلدازجلد رحسٹر کیا جائے اور ان کالجرز کو کشمکش کی صورتحال سے نکال کر بلوچستان کے میڈیکل طلبا کو راحت کی سانس لینے دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہی امید رکھتے ہیں حکومت بلوچستان سنجیدگی کا مظاہرہ کر کے جلدازجلد ان کالجز کی رجسٹریشن اور نوجوانوں کی بہتر مستقبل کیلئے اپنا کردار ادا کرے گی۔ اس کے ساتھ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پنجاب کے جن اداروں میں میڈیکل سیٹوں کا خاتمہ کیا گیا ہے جبکہ ایچ ای سی کی ختم کردہ 134 سیٹیں اور علامیہ اقبال و نشتر اور دوسرے یونیورسٹی میں پرانی میڈیکل سیٹوں کو بحال کیا جائے جس سے کئی نوجوانوں کیلئے تعلیم حاصل کرنے کے راستے بند ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بحیثیت ذمہ دار طلبا تنظیم کے ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ہم اپنا زیادہ وقت تعلیمی اداروں میں علمی ماحول کو فروغ دینے میں دیں۔ مگر بدقسمتی سے یہاں ہر وقت کے مسائل کی وجہ سے طلبا ذہنی کوفت کا شکار ہیں۔ اگر بلوچستان کے میڈیکل کالجز کی رجسٹریشن نہیں کی گئی اور پاکستان کے مختلف میڈیکل یونیورسٹیوں میں بلوچستان کے طلبا کی ختم شدہ سیٹوں کو بحال نہیں کیا گیا تو یقیناً ہمیں جمہوری طرز عمل اپناتے ہوئے احتجاج کی کال دینی پڑی گی جس کی ہم تمام تر بنیادی آئینی حق رکھتے ہیں۔