اس ماں کو کون سے قرنطینہ بھیجیں؟ – محمد خان داؤد

124

اس ماں کو کون سے قرنطینہ بھیجیں؟

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

کنفیوشس سے اس کے شاگرد لئی نے پوچھا
،،استاد خوش ماؤں کی خوشیوں کو اور دوبالا کیسے کیا جا سکتا ہے؟
تو کچھ دیر مراقبے میں جانے کے بعد کنفیوشس نے لئی کو جواب دیا کہ
،،جو مائیں غم میں ہیں لئی تمہارا ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟،،
بڑے شہر کی سُکھی مائیں اپنے بچوں کے لیے فکر مند ہیں کہ انہیں کہیں کرونا نہ ہو جائے اور وہ بچے ان کے گھروں سے آئیسولیشن وارڈوں میں نہ منتقل ہو جائیں۔اس بات کو لیکر وہ مائیں وہ سب احتیاطی تدابیر اختیار کر رہی ہیں جو اس وقت عالمی میڈیا سے ہو تے ہوئے ہم تک پہنچ رہی ہیں جن احتیاطی تدابیر میں وہی عالمی اسٹینڈرڈ رکھا گیا ہے کہ کب کھانا ہے؟کیا کھانا ہے؟کس سے ملنا ہے؟کتنا ملنا ہے؟کس چیز سے ہاتھوں کو دھونا ہے؟کب دھونا ہے؟کیسے چہرے کو ڈھانپنا ہے؟کتنا ڈھانپنا ہے؟اور گھر میں کیسے رہنا ہے؟ان ماؤں کو یہ سوچ کر ہی خوف کی کپکی چڑھ جا تی ہے کہ اگر ان کے بچے کرونا کا شکار ہوگئے یا وہ مائیں خود کرونا کا شکار ہوگئی تو ان ماؤں کو اور ان کے بچوں کو اکیلائی کا عذاب جھیلنا ہوگا جس کو میڈیکل کے زباں میں قرنطینہ لکھا،پڑھا اور پکارا جا رہا ہے۔

اس وقت سر مائیدار کے کھلونے کارپوریٹ میڈیا سے جو ہدایتیں جا ری کی جا رہی ہیں اس سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سرمائیدار،سرمائیدار کو بچانے کی فکر میں ہے۔جس کی دیکھا دیکھی امیر مائیں،امیر بچوں کو لیکر فکر مند ہیں،اور شہر کے سپر اسٹورز بلکل خالی ہو چکے ہیں۔ان سپر اسٹوروں میں باقی کچھ نہیں بچا۔

امیر شہروں کی امیر ماؤں کو یہ فکر بلکل بھی نہیں کہ اس شہر کے جزوی لاک ڈاؤن میں یہ اپنا گزر سفر کیسے کریں گیں؟ان کے گھر سب چیزوں سے وافر مقدار میں بھرے ہوئے ہیں۔

یہ مائیں اپنے محفوظ گھر وں میں اپنے چہروں پر میک اپ کا نیا تہہ چڑھا کر شوبز میگ پڑھ رہی ہیں اور ان کے بچے اپنے پوش کمروں میں سوشل میڈیا سائیٹس سے حظ حاصل کر رہے ہیں،امیرِ شہر کے لیے یہ لاک ڈاؤن مزے لے آیا ہے اور غریبِ شہر کے لیے فاقہ۔

ملک کا بے ہودہ میڈیا ان ماؤں کی تو فکر ایسے ہی کر رہا ہے جس فکر کے لیے کنفیوشس کے شاگرد لئی نے کنفیوشس سے پوچھا تھا کہ
،،استاد خوش ماؤں کی خوشیوں کو اور دوبالا کیسے کیا جا سکتا ہے؟،،
کنفیوشس اپنے شاگرد لئی کا یہ بے ہودہ سوال سن کر سکتہ کی سی کیفیت میں آگیا تھا۔

کیونکہ کنفیوشس کے دور میں بھی بس سُکھی اور خوش مائیں نہیں تھیں۔جب بھی ریا ست کی ستائی دُکھی مائیں تھیں جن کے دُکھ ان گنت تھے۔جن کے دُکھ بے شمار تھے۔اس وقت جو بھی کنفیوشس کی باتیں اور قول یاد کر کہ دھراتا تھا تو ریاست ایسے شخص کو زندہ جلا دیا کرتی تھی۔آرے سے چیر دیتی تھی۔پہاڑوں سے نیچے گرا دیتی تھی۔یا دیوارِ چین کی بھیانک مزدوری کے لیے اذیت بھرے کیمپوں میں بھیج دیتی تھی
لئی کے ایسے بے ہودہ سوال کو سن کر
کنفیوشس نے جواب دیا تھا کہ
،،جو مائیں غم میں ہیں لئی تمہارا ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟،،
میرا،آپ کا،سرمائیدار کارپوریٹ میڈیا کا دھیان ان ماؤں کی طرف تو جا رہا ہے جو کرونا سے فکر مند ہیں۔جن ماؤں کو یہ فکر ہے کہ اگر ان کے پاس رکھا نیسلے کا اسٹاک ختم ہو گیا تو وہ ایسے جزوی لاک ڈاؤن میں کیا کریں گیں؟وہ اپنے بچوں کو کیا پلائیں گی؟

پر ہمارا،اور میڈیا کا دھیان ان ماؤں کی جانب بلکل بھی نہیں جاتا جن پر دکھوں کے پہاڑ گرے ہوئے ہیں۔جو بہت غم میں ہیں۔جو مسافر مائیں ہیں۔جو بس زندگی کا نہیں پر پیروں سے بھی طویل سفر کر رہی ہیں۔جن ماؤں کی کوئی منزل نہیں۔پھر بھی سفر ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا۔
جن کے آنچل شکستہ پرچم کی مانند ہیں!
جن کی دید جانے کو ہے!
جو اک زمانے سے انتظاری کا عذاب جھیل رہی ہیں!
جن ماؤں کی پہلے پہل آنکھیں روئیں
پھر دل
اور اب روح!
جن ماؤں کے پیر دردوں سے شِل ہیں
پر کوئی آگے بڑھ کر ان دردوں سے پُر پیروں پر مرحم نہیں رکھتا
وہ مائیں تاریخ کا ایسا ہندسہ ہیں کہ آگے بڑھتا ہی نہیں
بس جہاں پر تھا وہیں پر ٹہر سا گیا ہے
بس ان ہندسوں میں دردوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
وہ مائیں خود بھی نہیں جانتی کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں اور خوشی سے آخری نوالہ کب لیا تھا؟
امیر شہر کی امیر مائیں اس لیے پریشان ہیں کہ شہر کے جزوی لاک ڈاؤن پر ان کے بچے نیسلے کا پانی کیسے پی پائیں گے؟
اور دردوں سے بھری مائیں تو یہ بھی بھولتی جا رہی ہیں کہ جب آخری بار ان کے بچے کو لے جایا گیا تھا تو اسے کون سے کپڑے پہنے ہوئے تھے؟

انہیں ماؤں کے دروں کی کیفیت کو جانتے ہوئے آج سے کئی سال پہلے کنفیوشس یہ یہ لئی سے کہا ہوا جواب نماں سوال ہما رے لیے چھوڑ دیا ہے کہ
،،جو مائیں غم میں ہیں لئی تمہارا ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟،،
کنفیوشس کا یہی سوال آج کی بے ہودہ میڈیا کے لیے ہے کہ
،،جو مائیں غم میں ہیں لئی تمہارا ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟،،
ٹھیک ہے میڈیا لئی کے سوال کو کہ
،،استاد خوش ماؤں کی خوشیوں کو اور دوبالا کیسے کیا جا سکتا ہے؟،،
ہم پر مسلط کرتا رہے اور ہم بھی اس میڈیائی تماشے کو دیکھتے رہیں
وہ مائیں جو اپنے گم شدہ بچوں کو روتی ہیں اور کسی دن ان کے بچے مسخ شدہ لاش کی صورت میں انہیں مل جا تے ہیں اور وہ مائیں ہاتھوں سے ان مسخ شدہ چھیروں کو چھو تی ہیں
اور درد سے بھر جا تی ہیں
ایسی ماؤں کو کون سے قرنطینہ منتقل کرو گے؟
اور خواب سے جاگ کر کنفیوشس اپنے شاگرد کو کہتا ہے
،،لئی تم پھر بھی کہتے کو کہ خوش ماؤں کی خوشیوں کو دوبالا کیسے کیا جا سکتا ہے
جاؤ اور دنیا سے پوچھا کہ ان ماؤں کا درد کیسے کم ہوگا
جو درد کو سہہ سہہ کر آپ ہی درد بن گئی ہیں!،،
بے تحاشہ درد!
لا دوا درد!
بے سبب درد!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔