بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی اپیل پر کوئٹہ پریس کلب سے ایک ریلی نکالی گئی۔
ریلی میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد کے علاوہ طلباء و طالبات سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کی بڑی تعداد ہاتھوں میں لاپتہ بلوچ افراد کی تصاویر اٹھا کر ان کی بازیابی کا مطالبہ کررہے تھے۔
ریلی کے شرکاء نے شہر کے مختلف شاہراہوں سے مارچ کرتے ہوئے شہر کے مصروف ترین جگہ میزان چوک پر مظاہرہ کی شکل اختیار کی۔
مظاہرین نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیلئے نعرہ بازی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں جاری لاپتہ بلوچ افراد کے لواحقین کے ساتھ آج اظہار یکجہتی کے لیے ہم سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ریلی اور احتجاجی مظاہرے میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء ملا بہرام، آغا زبیر شاہ، ہزارہ سیاسی کارکن طاہر خان کے علاہ بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور بی ایس کے کارکن بھی شریک تھے۔
اس موقع پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے اسلام آباد میں گذشتہ 8 روز سراپا احتجاج لواحقین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان کے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ بلوچستان آپ سے دور نکلا جارہا ہے یہ نفرت کی سیاست بند کرو، لوگوں کے جائز مطالبات سن کر انہیں حل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بسنے والے اب کوئی محفوظ نہیں، بلوچستان کو مکمل طور پر سیکورٹی فورسز نے ایک چھاؤنی میں تبدیل کرکے یہاں جس کو چاہے اٹھا کر لاپتہ کرتے ہیں۔
مقررین نے کہا کہ جب ہم کہتے ہیں ہم پر ظلم ہورہا ہے ہم بات کرتے ہیں آواز اٹھاتے ہیں تو کہتے ہیں یہ غدار ہیں۔ ریاست یہ چاہتی ہے کہ میں جتنا جبر کرو خاموشی سے برداشت کرو لیکن ایسا مکمن نہیں، ہم اپنے وطن میں غلاموں کی طرح رہ نہیں سکتے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ کیے جانیوالا لوگوں کے خلاف ریاست کے پاس ان کی گناہ کا ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے یہ ریاست شرمندگی سے بچنے کے لیے ماؤں کے جگر گوشوں کو سالوں لاپتہ کرکے اجتماعی قبروں میں دفن کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی روپ میں آمریت کرنے والے بلوچستان میں لوگوں کو لاپتہ کرسکتے ہیں مگر مزاحمت کی سوچ اور فکر کو ہرگز مٹا نہیں سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں سینکڑوں کی تعداد میں پشتون، بلوچ اور ہزارہ قتل ہوئے کوئی تحقیقات نہیں ہوا ہم جانتے ہیں یہاں کے مظلوم لوگوں کو قتل کرنے والے کون ہیں۔
مقررین نے اسلام آباد میں لاپتہ بلوچ افراد کے لواحقین کے دھرنے میں شرکت کرنے والے 9 بلوچ طلباء کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست جس سمت میں جارہی ہے وہ ریاست کے لیے مفید ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔
کوئٹہ ریلی میں بلوچ لاپتہ افراد کی لواحقین بھی اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھا کر شریک تھے۔ بعد ازاں مظاہرین ریلی کی شکل میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے پہنچ کر پرامن طور پر منتشر ہوئے۔